إِذْ قَالُوا لَيُوسُفُ وَأَخُوهُ أَحَبُّ إِلَىٰ أَبِينَا مِنَّا وَنَحْنُ عُصْبَةٌ إِنَّ أَبَانَا لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ
جب انھوں نے کہا یقیناً یوسف اور اس کا بھائی ہمارے باپ کے ہاں ہم سے زیادہ پیارے ہیں، حالانکہ ہم ایک قوی جماعت ہیں۔ بے شک ہمارا باپ یقیناً کھلی غلطی میں ہے۔
1۔ اِذْ قَالُوْا لَيُوْسُفُ وَ اَخُوْهُ ....: یعنی انھوں نے آپس میں کہا۔ دراصل انھوں نے اپنے ظلم کے جواز کے لیے یوسف علیہ السلام کا یہ جرم تجویز کیا، ورنہ اگر یہ جرم تھا تو والد کا تھا جو انھوں نے والد کو بھی معاف نہیں کیا، اس کا ذکر آگے آ رہا ہے، جب کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے قرآن مجید میں کہیں اشارہ بھی نہیں کہ اس میں یعقوب علیہ السلام کی کوئی غلطی تھی، اگر یہ غلطی ہوتی تو اللہ تعالیٰ یعقوب علیہ السلام کو ضرور اس سے آگاہ کر دیتا، کیونکہ وہ نبی تھے۔ بعض مفسرین نے بھی یہ لکھ دیا ہے کہ اس آیت سے معلوم ہوا کہ باپ کو بیٹوں کے درمیان محبت میں بھی برابری رکھنی چاہیے، حالانکہ نہ ان حضرات نے خیال فرمایا، نہ برادران یوسف نے کہ والدین کے بعض اولاد کی طرف میلان کے کیا مراتب و اسباب ہوتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ہمیشہ چھوٹے بچے والدین کی شفقت اور محبت زیادہ حاصل کرتے ہیں، جو یوسف علیہ السلام کے بڑے بھائیوں میں سے ہر ایک اپنی اس عمر میں حاصل کر چکا تھا، پھر اولاد کی طبیعت کی سرکشی اور اطاعت ماں باپ کی محبت کھینچنے میں فرق کا باعث بن جاتی ہے۔ اسی طرح بیمار بچے اور پردیس میں رہنے والے بچے کی طرف والدین کی توجہ زیادہ ہوتی ہے، جیسا کہ اُس قدیم عرب نے کہا تھا جس سے پوچھا گیا کہ تمھیں اپنے بیٹوں میں سب سے پیارا کون ہے؟ تو اس نے جواب دیا : ’’چھوٹا، یہاں تک کہ بڑا ہو، غائب یہاں تک کہ آ جائے اور بیمار یہاں تک کہ تندرست ہو جائے۔‘‘ (شعراوی) اس لیے شریعت نے اولاد کے درمیان عطیے میں برابری اور بیویوں کے درمیان عدل کا حکم دیا ہے، دلی میلان اور محبت نہ بندے کے اختیار میں ہے اور نہ اس کے کم و بیش ہونے میں ماں باپ کا کوئی جرم ہے، نہ اولاد کا۔ یوسف علیہ السلام کے چھوٹے بھائی کا جرم بھی یہی تھا۔ اللہ تعالیٰ نے چھوٹے بھائی کا نام بتایا نہ بڑوں کا، کیونکہ یہ بات قرآن کے مقصود سے خاص تعلق نہیں رکھتی۔ اب اگر ہم اہلِ کتاب سے سن کر چھوٹے کا نام بنیامین لکھیں یا بڑوں کا نام لکھیں تو جس بات کو ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق سچا یا جھوٹا نہیں کہہ سکتے، اس کا علم سے کیا تعلق ہے اور اس کا اعتبار ہی کیا ہے؟ علم یقین کا نام ہے، شک کا نہیں۔ 2۔ وَ نَحْنُ عُصْبَةٌ : یہ جملہ حالیہ ہے۔ لفظ ’’عُصْبَةٌ ‘‘ ایک قوی جماعت پر بولا جاتا ہے، جو عموماً دس سے لے کر چالیس پر مشتمل ہوں۔ یہ’’عَصْبٌ‘‘ سے مشتق ہے جو بمعنی ’’شَدٌّ‘‘ (باندھنا) ہے، کیونکہ ان میں سے ہر ایک دوسرے کو قوت اور سہارا دیتا ہے، یعنی ہم تمام کام سنبھالنے والے اور وقت پر کام آنے والے ہیں، جب کہ یوسف اور اس کا بھائی کم عمر ہونے کی وجہ سے والد کے کسی کام نہیں آ سکتے اور ہم ایک قوی جتھا ہیں جو اس بدوی ماحول میں وقت پر کام آ سکتے ہیں۔ 3۔ اِنَّ اَبَانَا لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنِ : یہاں انھوں نے باپ کو بھی نہیں بخشا۔ ’’ضَلٰلٍ مُّبِيْنِ ‘‘ سے مراد رائے کی غلطی ہے جو دنیوی معاملات میں ہوتی ہے، یہاں ضلالت سے مراد دینی ضلالت یا عام گمراہی نہیں ہے، ایسا کہتے تو یہ لوگ کافر ہو جاتے۔ (قرطبی) بعض اوقات کسی خاص کام میں غلطی پر بھی یہ لفظ آ جاتا ہے، جیسا کہ دو عورتوں کی شہادت ایک مرد کے برابر ہونے کی وجہ بتائی، فرمایا : ﴿ اَنْ تَضِلَّ اِحْدٰىهُمَا فَتُذَكِّرَ اِحْدٰىهُمَا الْاُخْرٰى ﴾ [ البقرۃ : ۲۸۲ ] ’’(اس لیے) کہ دونوں میں سے ایک بھول جائے تو ان میں سے ایک دوسری کو یاد دلا دے۔‘‘ دراصل وہ یوسف علیہ السلام کے ساتھ آئندہ کیے جانے والے سلوک میں اپنے آپ کو بے قصور باور کروا کر ساری غلطی والد کے ذمے ڈالنا چاہتے تھے، جنھوں نے اولاد کی محبت میں فرق کیا تھا۔