سورة البقرة - آیت 152

فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُوا لِي وَلَا تَكْفُرُونِ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

سو تم مجھے یاد کرو، میں تمھیں یاد کروں گا اور میرا شکر کرو اور میری ناشکری مت کرو۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

فَاذْكُرُوْنِيْۤ: اس میں ’’فاء‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ میں نے اپنے رسول اور قرآن کے ذریعے سے نعمت پوری کرنے کا انعام تم پر کیا ہے، سو تم پر بھی لازم ہے کہ تم مجھے یاد کرو اور یاد رکھو۔ ذکر کا معنی زبان سے یاد کرنا بھی ہے اور دل اور عمل سے بھی۔ یہ نسیان (بھولنے) کی ضد ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَ الَّذِيْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَةً اَوْ ظَلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللّٰهَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِهِمْ﴾ [ آل عمران : ۱۳۵ ] ’’اور وہ لوگ کہ جب کوئی بے حیائی کرتے ہیں یا اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں ، تو اللہ کو یاد کرتے ہیں ، پس اپنے گناہوں کی بخشش مانگتے ہیں ۔‘‘ جب کوئی شخص اللہ کے کسی حکم پر عمل کرتا ہے، نیکی کا حکم دیتا ہے، برائی سے روکتا ہے تو وہ بھی اللہ کو یاد کرتا ہے، یاد کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ روزانہ لاکھ مرتبہ زبان سے ذکر کیا جائے اور اللہ کے احکام کو اور اس کی ڈالی ہوئی ذمہ داریوں کو بھلا ہی دیا جائے۔ کفار خواہ تمام بلاد اسلام پر قابض ہو جائیں ہمیں اپنی روزانہ کی ہزار رکعت پوری کرنے ہی سے فرصت نہ ہو۔ ﴿اَذْكُرْكُمْ﴾ ’’میں تمھیں یاد کروں گا‘‘یہ اللہ کو یاد کرنے کی سب سے بڑی فضیلت ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : ’’اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اگر(میرا بندہ) مجھے اپنے نفس میں یاد کرے تو میں اسے اپنے نفس میں یاد کرتا ہوں اور اگر وہ مجھے کسی جماعت میں یاد کرے تو میں اس سے بہتر جماعت میں اسے یاد کرتا ہوں ۔‘‘ [ بخاری، التوحید، باب قول اللہ تعالٰی : ﴿و یحذرکم اللّٰہ ....﴾ : ۷۴۰۵۔ مسلم، الذکر والدعاء والاستغفار، باب الحث علی ذکر اللہ تعالٰی : ۲۶۷۵ ] ۔ وَ اشْكُرُوْا لِيْ: شکر زبان سے بھی ہوتا ہے اور عمل سے بھی، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿اِعْمَلُوْۤا اٰلَ دَاؤدَ شُكْرًا﴾ [ سبا : ۱۳] ’’اے داؤد کے گھر والو ! شکر ادا کرنے کے لیے عمل کرو۔‘‘ عمل نعمت کے مطابق نہ ہو تو شکر بھی نہیں ۔ وَ لَا تَكْفُرُوْنِ: اس میں ہر ناشکری اور کفر شامل ہے، وہ زبان سے ہو یا عمل سے۔ زبان سے تو الحمد للہ کہنا، لیکن بیٹوں کا نام پیراں دتہ رکھنا، غیر اللہ کو خدائی اختیارات کا مالک سمجھنا، اللہ تعالیٰ کی طرف سے اعلان جنگ سن کر بھی سود کھائے جانا، گھر میں بے حیائی کو فروغ دیتے جانا، رشوت لے کر اسے فضل ربی قرار دینا اور ڈاڑھی منڈوا کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی حسین صورت سے بے زاری کا اظہار شکر نہیں بلکہ کفر اور ناشکری کی بدترین صورتیں ہیں ۔