خَالِدِينَ فِيهَا مَا دَامَتِ السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ إِلَّا مَا شَاءَ رَبُّكَ ۚ إِنَّ رَبَّكَ فَعَّالٌ لِّمَا يُرِيدُ
ہمیشہ اس میں رہنے والے، جب تک سارے آسمان اور زمین قائم ہیں مگر جو تیرا رب چاہے۔ بے شک تیرا رب کر گزرنے والا ہے جو چاہتا ہے۔
1۔ خٰلِدِيْنَ فِيْهَا مَا دَامَتِ السَّمٰوٰتُ وَ الْاَرْضُ: ’’جب تک سارے آسمان و زمین قائم ہیں‘‘ مراد ہمیشہ کا عذاب ہے، کیونکہ جب کسی چیز کی ہمیشگی ظاہر کرنا مقصود ہوتا ہے تو عرب ’’ مَا دَامَتِ السَّمٰوٰتُ وَ الْاَرْضُ ‘‘ کا محاورہ استعمال کرتے ہیں، ورنہ تعلیق نہیں، یعنی یہ معنی نہیں کہ جب تک آسمان و زمین قائم رہیں گے عذاب رہے گا، پھر نہیں۔ ہاں آسمان و زمین سے مراد آخرت کے آسمان و زمین ہوں تو محاورے کے بغیر ہی ہمیشگی مراد ہے، کیونکہ دنیا کے زمین و آسمان تو اس دن بدل دیے جائیں گے، فرمایا : ﴿ يَوْمَ تُبَدَّلُ الْاَرْضُ غَيْرَ الْاَرْضِ وَ السَّمٰوٰتُ وَ بَرَزُوْا لِلّٰهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ ﴾ [ إبراہیم : ۴۸ ] ’’جس دن یہ زمین اور زمین سے بدل دی جائے گی اور سب آسمان بھی اور لوگ اللہ کے سامنے پیش ہوں گے، جو اکیلا ہے، بڑا زبردست ہے۔‘‘ آخرت کے آسمان و زمین میں جنت واقع ہو گی اور وہ ہمیشہ رہنے والی ہے۔ لہٰذا وہ زمین و آسمان بھی دائمی ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے جنتیوں کا قول ذکر فرمایا : ﴿ وَ قَالُوا الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ صَدَقَنَا وَعْدَهٗ وَ اَوْرَثَنَا الْاَرْضَ نَتَبَوَّاُ مِنَ الْجَنَّةِ حَيْثُ نَشَآءُ ﴾ [ الزمر : ۷۴ ] ’’اور وہ کہیں گے سب تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے ہم سے اپنا وعدہ سچا کیا اور ہمیں اس زمین کا وارث بنا دیا کہ ہم جنت میں جہاں چاہیں جگہ بنا لیں۔‘‘ تو مطلب یہ ہو گا کہ جہنمی جہنم میں اور جنتی جنت میں ہمیشہ رہیں گے۔ (ابن کثیر) 2۔ اِلَّا مَا شَآءَ رَبُّكَ: یہ لفظ ’’ شَقِيٌّ ‘‘ اور ’’ سَعِيْدٌ ‘‘ دونوں کے تذکرے میں آئے ہیں، یعنی بدبخت آگ میں ہمیشہ رہیں گے، جب تک آسمان و زمین قائم ہیں، مگر جو تیرا رب چاہے۔ اسی طرح سعادت مندوں کے متعلق بھی فرمایا کہ وہ ہمیشہ جنت میں رہیں گے، جب تک آسمان و زمین قائم ہیں، مگر جو تیرا رب چاہے۔ دونوں آیتوں میں ’’مگر جو تیرا رب چاہے‘‘ کا تعلق اہلِ توحید سے ہے۔ پہلی آیت میں مطلب یہ ہو گا کہ مومن موحد گناہ گار جب اپنی سزا بھگت لیں گے تو انھیں جہنم سے نکال لیا جائے گا، جیسا کہ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : (( يَدْخُلُ أَهْلُ الْجَنَّةِ الْجَنَّةَ وَأَهْلُ النَّارِ النَّارَ ثُمَّ يَقُوْلُ اللّٰهُ تَعَالَی أَخْرِجُوْا مَنْ كَانَ فِيْ قَلْبِهِ مِثْقَالُ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ مِنْ إِيْمَانٍ، فَيُخْرَجُوْنَ مِنْهَا قَدِ اسْوَدُّوْا فَيُلْقَوْنَ فِيْ نَهْرِ الْحَيَا أَوِ الْحَيَاةِ، شَكَّ مَالِكٌ فَيَنْبُتُوْنَ كَمَا تَنْبُتُ الْحِبَّةُ فِيْ جَانِبِ السَّيْلِ، أَلَمْ تَرَ أَنَّهَا تَخْرُجُ صَفْرَاءَ مُلْتَوِيَةً ؟ )) [ بخاری، الإیمان، باب تفاضل أہل الإیمان فی الأعمال : ۲۲۔ مسلم : ۱۸۴ ] ’’اہل جنت، جنت میں اور اہل نار آگ میں داخل ہو جائیں گے، پھراللہ تعالیٰ فرمائے گا : ’’جس شخص کے دل میں ایک رائی کے دانے کے برابر ایمان ہے اسے اس سے نکال لو!‘‘ تو وہ اس سے اس حال میں نکالے جائیں گے کہ سیاہ ہو چکے ہوں گے، پھر انھیں ’’نَهْرُ الْحَيَا‘‘ (بارش کے پانی کی نہر) یا ’’نَهْرُ الْحَيَاةِ‘‘ (زندگی کی نہر) میں ڈال دیا جائے گا (امام مالک کو شک ہے) تو وہ اس طرح اگ آئیں گے جیسے بوٹیوں کا بیج سیلاب کی جانب میں اگ آتا ہے۔ تم نے نہیں دیکھا کہ وہ زرد لپٹا ہوا اگتا ہے؟‘‘ اس مفہوم کی بہت سی احادیث آئی ہیں کہ سزا پا کر یا شفاعت سے یا محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے گناہ گار مسلمان آخر کار جہنم سے نکل کر جنت میں چلے جائیں گے، اس پر اہل سنت کا اتفاق ہے۔ گو بعض نے اس سے دوزخ کے بالآخر فنا ہونے پر استدلال کیا ہے اور اس سلسلے میں ایک ضعیف حدیث اور کچھ غریب اقوال بھی نقل کیے ہیں، مگر یہ مطلب قرآن کی دوسری آیات کے خلاف ہے، جن میں جہنمیوں کے متعلق ’’خٰلِدِيْنَ ‘‘ اور ’’اَبَدًا ‘‘ کے الفاظ مذکور ہیں اور ان احادیث کے بھی صریح خلاف ہے، جن میں ہے : (( يُجَاءُ بِالْمَوْتِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كَأَنَّهٗ كَبْشٌ أَمْلَحُ حَتّٰي يُجْعَلَ بَيْنَ الْجَنَّةِ وَالنَّارِ، ثُمَّ يُذْبَحُ، ثُمَّ يُنَادِيْ مُنَادٍ يَا أَهْلَ الْجَنَّةِ ! لاَ مَوْتَ، يَا أَهْلَ النَّارِ! لاَ مَوْتَ، فَيَزْدَادُ أَهْلُ الْجَنَّةِ فَرَحًا إِلٰى فَرَحِهِمْ، وَيَزْدَادُ أَهْلُ النَّارِ حُزْنًا إِلٰی حُزْنِهِمْ )) [ مسلم، الجنۃ و نعیمہا، باب النار یدخلہا الجبارون :۲۸۴۹، 42؍2850۔ بخاری : ۶۵۴۸ ] ’’موت کو ایک مینڈھے کی شکل میں جنت اور جہنم کے درمیان لا کر ذبح کر دیا جائے گا اور اعلان کرنے والا اعلان کرے گا کہ اے اہل جنت! (اب) موت نہیں اور اے اہل نار! اب موت نہیں! تو جنتیوں کی خوشیوں کے ساتھ مزید خوشی کا اور جہنمیوں کے غم کے ساتھ مزید غم کا اضافہ ہو جائے گا۔‘‘ اور مسلم کی ایک روایت (۴۲؍۲۸۵۰) میں ہے : (( كُلٌّ خَالِدٌ فِيْمَا هُوَ فِيْهِ )) کہ ہر ایک جس جگہ میں ہے اس میں ہمیشہ رہے گا۔ ایسی بہت سی صحیح احادیث موجود ہیں، اس لیے جہنم کے بالآخر فنا ہونے کی کوئی واضح اور پختہ دلیل موجود نہیں۔ 3۔ اِنَّ رَبَّكَ فَعَّالٌ لِّمَا يُرِيْدُ : یہ ان لوگوں پر رد ہے جو ہر عمل کی تاثیر ذاتی سمجھتے ہیں، جیسا کہ زہر کھانے کا لازمی نتیجہ موت ہے، چنانچہ معتزلہ اور خارجیوں کا کہنا ہے کہ جو مسلمان کبائر کا مرتکب ہو اور توبہ نہ کی ہو، وہ بھی ابدی جہنمی ہے۔ ایک دفعہ جو آگ میں چلا گیا وہ وہاں سے کبھی نہیں نکلے گا۔ اللہ تعالیٰ نے اہل شقاوت (جو جہنم میں جائیں گے، جن میں کافر اور گناہ گار مسلمان دونوں شامل ہیں) کے متعلق فرمایا کہ وہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے، مگر جو تیرا رب چاہے۔ کیونکہ بلاشبہ تیرا رب جو چاہے کر گزرنے والا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ کسی بھی چیز کی تاثیر اللہ کے حکم ہی سے ہوتی ہے، وہ چاہے تو آگ جلاتی ہے، پانی غرق کرتا ہے، زہر موت کا باعث بنتا ہے، اگر وہ اس کے برعکس چاہے تو نہ آگ جلاتی ہے، نہ پانی غرق کرتا ہے، نہ زہر کھانا موت کا باعث ہوتا ہے، حالانکہ یہ ان کی اپنی تاثیر کے خلاف ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ اہل کبائر مسلمانوں کو جہنم سے نکال لے گا، وہ جو چاہے کر گزرنے والا ہے، کوئی اس کا ہاتھ نہیں پکڑ سکتا۔ 4۔ وَ اَمَّا الَّذِيْنَ سُعِدُوْا ....: اس دوسری آیت میں اہل سعادت (اہل جنت) کے متعلق بھی ’’مگر جو تیرا رب چاہے‘‘ کے الفاظ فرمائے ہیں۔ یہاں بھی ان سے مراد گناہ گار مسلمان ہی ہیں، یعنی جنتی جنت میں ہمیشہ رہیں گے، تاہم کچھ لوگ اللہ کی مشیت کے تحت جہنم سے نکال کر جنت میں لائے جائیں گے۔ گویا وہ ہمیشہ جنت میں نہ رہے مگر جنت میں داخل ہونے کے بعد چونکہ کوئی بھی اس سے نہیں نکلے گا، اس لیے آخر میں فرمایا : ﴿ عَطَآءً غَيْرَ مَجْذُوْذٍ ﴾ یعنی جنت ایسا عطیہ ہے جو قطع کیا جانے والا نہیں۔ (روح المعانی) 5۔ شاہ عبد القادر رحمہ اللہ اپنے فوائد میں لکھتے ہیں کہ اس کے یعنی آیت : ﴿ مَا دَامَتِ السَّمٰوٰتُ وَ الْاَرْضُ اِلَّا مَا شَآءَ رَبُّكَ ﴾ کے دو معنی ہو سکتے ہیں، ایک یہ کہ رہیں گے آگ میں جتنی دیر رہ چکے ہیں آسمان و زمین دنیا میں، مگر جتنا اور چاہے تیرا رب، وہ اسی کو معلوم ہے۔ دوسرے یہ کہ رہیں گے آگ میں جب تک رہے آسمان و زمین اس (آخری) جہان کا، یعنی ہمیشہ مگر جو چاہے رب تو موقوف کر دے، لیکن وہ چاہ چکا کہ موقوف نہ ہو۔ اس کہنے میں فرق نکلا اللہ کے ہمیشہ رہنے میں اور بندے کے کہ بندے کے ہمیشہ رہنے پر ساتھ یہ بات لگی ہے کہ اللہ چاہے تو فنا کر دے۔‘‘ (موضح) گویا شاہ صاحب نے اس مشہور اعتراض کا بھی جواب دے دیا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات بھی ہمیشہ رہنے والی ہے، جنتی اور جہنمی بھی ہمیشہ جنت اور جہنم میں رہنے والے ہوئے تو دونوں ایک دوسرے کی مثل ابدی ہو گئے، جب کہ فرمایا : ﴿ لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌ ﴾ [ الشوریٰ : ۱۱ ] ’’اس کی مثل کوئی چیز نہیں۔‘‘ جواب یہ ہے کہ بندے کا جہنم یا جنت میں ہمیشہ رہنا اور ابدی ہونا اللہ تعالیٰ کی مشیت پر موقوف ہے، جبکہ اللہ تعالیٰ کا ابدی ہونا کسی کی مشیت پر موقوف نہیں۔ وہ خود ہی ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا، وہ ازلی بھی ہے اور ابدی بھی۔