وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۚ وَحَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَيْكُمْ حُجَّةٌ إِلَّا الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْهُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِي وَلِأُتِمَّ نِعْمَتِي عَلَيْكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ
اور تو جہاں سے نکلے سو اپنا چہرہ مسجد حرام کی طرف پھیر لے اور تم جہاں کہیں ہو سو اپنے چہرے اس کی طرف پھیر لو، تاکہ لوگوں کے پاس تمھارے خلاف کوئی حجت نہ رہے، سوائے ان کے جنھوں نے ان میں سے ظلم کیا ہے، سو ان سے مت ڈرو اور مجھ سے ڈرو اور تاکہ میں اپنی نعمت تم پر پوری کروں اور تاکہ تم ہدایت پاؤ۔
1۔ اس آیت میں پچھلا حکم دہرایا گیا ہے، پہلے جملے ”فَوَلِّ وَجْهَكَ“ میں مخاطب نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم ہیں اور دوسرے جملے ”فَوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ شَطْرَهٗ“ میں تمام مسلمان مخاطب ہیں ، تاکہ یہ حکم نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ خاص نہ سمجھا جائے۔ دہرانے کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ یہاں بیت اللہ کو قبلہ مقرر کرنے کی مزید حکمتیں بیان کرنا مقصود ہے۔ جن میں سے پہلی حکمت یہ ہے کہ لوگوں میں سے کسی کے پاس تمھارے خلاف کوئی دلیل باقی نہ رہے۔ اہل کتاب یہ نہ کہہ سکیں کہ پہلی کتابوں میں تو آخری نبی کا قبلہ مسجد حرام ہے، انھوں نے بیت المقدس کو قبلہ کیوں بنا رکھا ہے؟ اور کفار عرب یہ نہ کہہ سکیں کہ ملتِ ابراہیم کا قبلہ تو بیت اللہ ہے، یہ اسے کیوں اختیار نہیں کر رہے ؟ دلیل تو ان میں سے کسی کے پاس نہیں رہے گی، البتہ ان میں سے بے انصاف لوگ خاموش نہیں ہوں گے، سو ان سے مت ڈرو، بس مجھی سے ڈرتے رہو۔ دوسری حکمت یہ ہے کہ جس طرح اس آخری امت کے احکام قیامت تک مکمل اور غیر منسوخ کرکے تم پر اپنی نعمت تمام کی ہے قبلہ کے بارے میں بھی یہ نعمت تمام ہو اور تیسری حکمت دوسرے احکام کی طرح قبلہ میں بھی تمھیں راہِ حق کی ہدایت عطا کرنا ہے۔ 2۔شروع آیات سے یہاں تک نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو کعبہ کی طرف رخ کرنے کا حکم تین مرتبہ، مسلمانوں کو یہ حکم دو مرتبہ، اس کے حق ہونے کا ذکر تین مرتبہ اور ہر جگہ اس کی طرف رخ کرنے کا حکم تین مرتبہ آیا ہے، اس سے اس حکم کی تاکید اور اس کی شان واضح ہو رہی ہے۔ درمیان میں دوسرے جملے مثلاً اہل کتاب کا اس کے حق ہونے کو جاننا اور اللہ کا تمھارے عمل سے بے خبر نہ ہونا وغیرہ تاکید مزید کا کام دے رہے ہیں ۔ (ابن عاشور)