وَيَا قَوْمِ أَوْفُوا الْمِكْيَالَ وَالْمِيزَانَ بِالْقِسْطِ ۖ وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْيَاءَهُمْ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ
اور اے میری قوم! ماپ اور تول انصاف کے ساتھ پورا کرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم نہ دو اور زمین میں فساد کرتے ہوئے دنگا نہ مچاؤ۔
1۔ وَ يٰقَوْمِ اَوْفُوا الْمِكْيَالَ وَ الْمِيْزَانَ بِالْقِسْطِ : پہلے فرمایا کہ ماپ اور تول میں کمی نہ کرو، اب اس کی مزید تاکید فرمائی کہ ماپ اور تول پورا کرو، نہ دیتے وقت کم دو، نہ لیتے وقت زیادہ لو۔ مزید دیکھیے سورۂ مطففین (۱ تا ۳)۔ 2۔ وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْيَآءَهُمْ : پہلے ماپ تول کا خاص طور پر ذکر فرمایا، اب لینے دینے کے ہر طریقے کو ان الفاظ کے ذریعے سے شامل کر لیا، مثلاً کسی بھی طرح کے میٹروں کے ذریعے، یا گننے کے ذریعے، غرض کسی بھی طرح لوگوں کو ان کی چیز کم مت دو، نہ زیادہ لو۔ 3۔ وَ لَا تَعْثَوْا فِي الْاَرْضِ مُفْسِدِيْنَ : ’’عَثِيَ يَعْثٰي‘‘ بروزن ’’رَضِيَ يَرْضٰي‘‘ حد سے بڑھ کر فساد کرنا، مثلاً ان کی عادت تھی کہ اگر کم ماپ تول کے خلاف کوئی شخص احتجاج کرتا تو سب مل کر اس پر حملہ آور ہو جاتے۔ اسی طرح موقع ملتا تو ڈاکے مارتے اور لوگوں سے چیزیں چھین لیتے۔ خلاصہ یہ کہ شعیب علیہ السلام نے انھیں ہر قسم کے فساد سے منع فرمایا۔