مُّسَوَّمَةً عِندَ رَبِّكَ ۖ وَمَا هِيَ مِنَ الظَّالِمِينَ بِبَعِيدٍ
جو تیرے رب کے ہاں سے نشان لگائے ہوئے تھے اور وہ ان ظالموں سے ہرگز کچھ دور نہیں۔
1۔ مُسَوَّمَةً عِنْدَ رَبِّكَ : ’’نشان لگے ہوئے‘‘ یعنی ان میں سے ہر پتھر پر کوئی علامت بنائی گئی تھی کہ اس سے کس کو ہلا ک کرنا ہے۔ (ابن کثیر) 2۔ وَ مَا هِيَ مِنَ الظّٰلِمِيْنَ بِبَعِيْدٍ : اس کے دو معنی ہیں، ایک تو یہ کہ جو لوگ بھی ظلم کی روش پر چلیں گے (مثلاً مغربی اقوام اور ان کے پرستار جو دھڑلے سے اس فعل بد کا ارتکاب اور اس کی اشاعت کر رہے ہیں) ان پر بھی یہ عذاب آنا کچھ دور نہیں، یا الف لام عہد کا ہو تو ان ظالموں (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے کافروں) پر بھی نزول عذاب بعید از قیاس نہیں۔ اگر قوم لوط پر عذاب آ سکتا ہے تو ان پر بھی آ سکتا ہے۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ وہ الٹی ہوئی بستیاں ان مکہ کے ظالموں سے کچھ دور نہیں، بلکہ ملک شام کو جاتے ہوئے دائمی آباد راستے میں ہیں، جن کی بے مثال بربادی یہ لوگ صبح و شام آتے جاتے دیکھتے ہیں۔ مزید دیکھیے سورۂ حجر (۷۶) اور صافات (۱۳۷، ۱۳۸) کے حواشی۔