سورة ھود - آیت 57

فَإِن تَوَلَّوْا فَقَدْ أَبْلَغْتُكُم مَّا أُرْسِلْتُ بِهِ إِلَيْكُمْ ۚ وَيَسْتَخْلِفُ رَبِّي قَوْمًا غَيْرَكُمْ وَلَا تَضُرُّونَهُ شَيْئًا ۚ إِنَّ رَبِّي عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ حَفِيظٌ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

پھر اگر تم پھر جاؤ تو بلاشبہ میں تمھیں وہ پیغام پہنچا چکا جسے دے کر مجھے تمھاری طرف بھیجا گیا ہے۔ اور میرا رب تمھارے سوا کسی اور قوم کو تمھاری جگہ لے آئے گا اور تم اس کا کچھ نقصان نہ کرو گے۔ بے شک میرا رب ہر چیز پر اچھی طرح نگہبان ہے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقَدْ اَبْلَغْتُكُمْ مَّاۤ اُرْسِلْتُ بِهٖ اِلَيْكُمْ ....: ’’تَوَلَّوْا ‘‘ اصل میں ’’تَتَوَلَّوْا ‘‘ تھا، لغت عرب میں کسی فعل کے شروع میں اگر دو ’’تاء‘‘ ہوں تو عموماً ایک کو حذف کر دیتے ہیں۔ یعنی رسولوں کے بھیجنے کا مقصد یہ ہے کہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ مجھ تک اللہ کا پیغام نہیں پہنچا، اس لیے میں معذور ہوں، اب اگر تم نہ مانو تو بے شک نہ مانو، مگر میرا فریضہ پورا ہو گیا اور تمھارا عذر ختم ہو گیا۔ اب اللہ تعالیٰ کا یہ قاعدہ کہ ’’وہ پیغام پہنچائے بغیر عذاب نہیں دیتا‘‘ تمھارے لیے بہانہ نہیں بن سکتا۔ تمھارے نہ ماننے سے اللہ تعالیٰ کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ وہ تمھیں ختم کرکے تمھاری جگہ اور لوگ لے آئے گا اور تم اس کا کچھ نقصان نہ کر سکو گے۔ آگے اس کی مرضی ہے کہ تمھاری جگہ اچھے لوگ لائے، جیسا کہ فرمایا : ﴿ وَ اِنْ تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ ثُمَّ لَا يَكُوْنُوْۤا اَمْثَالَكُمْ ﴾ [ محمد : ۳۸ ] ’’اور اگر تم پھر جاؤ گے تو وہ تمھاری جگہ تمھارے سوا اور لوگ لے آئے گا، پھر وہ تمھاری طرح نہیں ہوں گے۔‘‘ اور یہ بھی اس کی مرضی ہے کہ چاہے تو مزید برے لوگ لے آئے، جیسا کہ بنی اسرائیل نے جب ارض مقدس میں فساد شروع کیا تو اللہ تعالیٰ نے انھیں سزا دینے کے لیے ان سے بھی برے بندے ان پر مسلط کر دیے۔ دیکھیے سورۂ بنی اسرائیل (۵ تا ۷)۔ اِنَّ رَبِّيْ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ حَفِيْظٌ: یعنی جس طرح بعض جاہل فلسفی کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کائنات کو پیدا کیا اور اس کے قوانین بنا دیے، اب وہ ان قوانین کے مطابق خود بخود چل رہی ہے، یہ بات بالکل غلط ہے۔ میرے رب نے کائنات کو پیدا کیا، پھر ’’رب‘‘ کا معنی ہی یہ ہے کہ تربیت اور پرورش بھی وہی کر رہا ہے۔ پھر حفیظ بھی وہی ہے۔ ہر چیز اس کی نگرانی میں چل رہی ہے۔ اس سے ان مشرکوں اور جاہل صوفیوں کا بھی رد ہو گیا جو کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کرکے اس کا انتظام قطبوں، غوثوں اور اس قسم کے خود ساختہ ناموں والے ولیوں اور بزرگوں کے حوالے کر دیا ہے، جو اس کو چلا رہے ہیں اور اس کی نگرانی کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اب فارغ ہے، اختیار اس نے اپنے پیاروں کو دے دیے ہیں۔ اللہ اکبر! پہلی امتوں کے مشرکوں اور ہماری امت کے مشرکوں میں کس قدر مشابہت اور یک رنگی پائی جاتی ہے۔