تِلْكَ مِنْ أَنبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهَا إِلَيْكَ ۖ مَا كُنتَ تَعْلَمُهَا أَنتَ وَلَا قَوْمُكَ مِن قَبْلِ هَٰذَا ۖ فَاصْبِرْ ۖ إِنَّ الْعَاقِبَةَ لِلْمُتَّقِينَ
یہ غیب کی خبروں سے ہے جنھیں ہم تیری طرف وحی کرتے ہیں، اس سے پہلے نہ تو انھیں جانتا تھا اور نہ تیری قوم، پس صبر کر، بے شک اچھا انجام متقی لوگوں کے لیے ہے۔
1۔ تِلْكَ مِنْ اَنْۢبَآءِ الْغَيْبِ ....: اس آیت سے معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم شروع ہی سے سب کچھ نہیں جانتے تھے، نہ آپ غیب دان تھے، ورنہ وحی کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ بعض لوگ ان تمام آیات کی تاویل کرتے ہیں جن میں ہے کہ اے نبی! یہ غیب کی خبریں ہیں، ہم آپ کو سنا رہے ہیں، آپ نہ اس وقت وہاں تھے نہ آپ کو یہ باتیں معلوم تھیں، یہ ہم نے آپ کو وحی کے ذریعے بتائی ہیں۔ جو لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی عالم الغیب کہتے ہیں وہ اس قسم کی آیات ’’یہ غیب کی خبریں ہیں، اس سے پہلے آپ ان کو نہیں جانتے تھے‘‘ کی تحریف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ خطاب دراصل امت کے لوگوں کو ہے کہ اے امت محمد کے لوگو! تم یہ باتیں نہیں جانتے تھے، مگر ہماری اس زیر تفسیر آیت نے ان لوگوں کی اس تحریف کو واضح طور پر باطل ثابت کر دیا، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ’’یہ غیب کی خبروں سے ہے جنھیں ہم تیری طرف وحی کرتے ہیں، اس سے پہلے نہ تو انھیں جانتا تھا اور نہ تیری قوم۔‘‘ معلوم ہوا کہ ان تمام آیات سے بھی یہی مراد ہے کہ صرف قوم ہی نہیں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی غیب دان نہیں تھے۔ اگر غیب دان مانیں تو بار بار وحی کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔ اسی طرح نوح علیہ السلام کا سارا واقعہ ان کے غیب دان ہونے کی نفی کرتا ہے، ورنہ اگر انھیں پہلے ہی سب کچھ معلوم تھا تو ساڑھے نو سو سال کی محنت، اس دوران میں قوم کی بدتمیزیوں پر صبر، پھر وحی کے مطابق کشتی بنانا، پھر بیٹے کے حق میں دعا کرنا، اللہ تعالیٰ کا ناراض ہونا اور نوح علیہ السلام کا معافی مانگنا، سب کچھ افسانہ ٹھہرتا ہے۔ اسی طرح اگر ابراہیم علیہ السلام کو معلوم تھا کہ آگ مجھے نہیں جلائے گی، اسماعیل علیہ السلام ذبح نہیں ہوں گے، یا سارہ علیھا السلام کا کچھ نہیں بگڑے گا تو پھر ان کی جان و مال اور اولاد و آبرو اللہ کی راہ میں قربان کر دینے کی بات بے معنی ٹھہرتی ہے۔ بدر کی رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آہ و زاری اور افک یعنی عائشہ رضی اللہ عنھا پر بہتان کے موقع پر پریشانی کا کچھ مطلب نہیں بنتا۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا۔ رسولوں کو اتنی بات ہی معلوم ہوتی ہے جو وحی کے ذریعے سے انھیں بتائی جاتی ہے۔ 2۔ فَاصْبِرْاِنَّ الْعَاقِبَةَ لِلْمُتَّقِيْنَ: ’’عَاقِبَةٌ ‘‘ ایک حالت کے بعد آنے والی حالت، اس پر الف لام آئے تو عموماً اچھا انجام مراد ہوتا ہے، یعنی جس طرح نوح علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کا انجام بخیر رہا اور ان کے تمام مخالفین ہلاک کر دیے گئے، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انجام بھی دنیا و آخرت دونوں میں بہتر رہے گا اور آپ کے مخالفین دنیا میں بھی ذلیل و برباد ہوں گے اور آخرت میں بھی انھیں دوزخ کی آگ نصیب ہو گی۔ مسلمانوں کی تعداد کا کم ہونا اور مدت دراز تک اسلام کی دعوت کا کامیاب نہ ہونا اس بات کی دلیل نہیں کہ یہ دعوت ناکام ہے، بلکہ مسلسل صبر اور دعوت کے نتیجے میں آخری کامیابی اہل اسلام ہی کو ملے گی، خواہ کچھ نسلیں گزرنے کے بعد ملے۔ کائنات میں اللہ تعالیٰ کے لاتعداد لشکر ہیں، مثلاً آگ، ہوا، پانی، پہاڑ اور بے شمار مخلوق۔ اللہ تعالیٰ ان میں سے کسی کو بھی اشارہ کر دے تو کافروں کا نام و نشان باقی نہیں رہ سکتا۔ کافر یہ نہ سمجھیں کہ مسلمان ہمیشہ مغلوب و مقہور ہی رہیں گے، بلکہ مسلمان اگر صبر و استقامت سے کام لیں اور اپنی ہر مصیبت اور بے بسی کو صرف اللہ کریم کے سامنے پیش کرتے رہیں، جیسا کہ نوح علیہ السلام نے کہا : ﴿اَنِّيْ مَغْلُوْبٌ فَانْتَصِرْ﴾ [ القمر : ۱۰ ] ’’بے شک میں مغلوب ہوں سو تو بدلہ لے۔‘‘ تو خواہ ان کی تعداد کتنی ہی کم ہو، جیسا کہ نوح علیہ السلام کی ساڑھے نو سو سال کی دعوت کا حاصل بہت ہی کم آدمی، بارہ(۱۲) یا چالیس(۴۰) یا اسّی(۸۰) آدمی نکلے، مگر نوح علیہ السلام اور اہل ایمان کی محنت ناکام نہیں ہوئی، بلکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی غیبی قوت کے ساتھ دنیا کو تہ وبالا کرکے ان قلیل لوگوں کو ایسی کامیابی عطا فرمائی کہ ان کے دشمنوں کا نام و نشان مٹ گیا اور یہ پوری زمین کے مالک بن گئے۔ بنی اسرائیل، موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کا واقعہ پڑھ لیجیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تین سو تیرہ بے سرو سامان ساتھیوں کی ایک ہزار مسلح کفار کے مقابلے میں غیب سے فرشتے بھیج کر ایسی مدد کی کہ وہ دن فیصلہ کن دن بن گیا کہ آئندہ کسے غالب ہو کر رہنا ہے۔ غرض اللہ کا فیصلہ ہے کہ اچھا انجام متقین ہی کا ہے۔ (الوسیط) 3۔ اس آیت میں ’’ تِلْكَ مِنْ اَنۢبَآءِ الْغَيْبِ ‘‘ سے ’’ وَ لَا قَوْمُكَ مِنْ قَبْلِ هٰذَا ‘‘ تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی امت پر احسان کا ذکر ہے، ’’ فَاصْبِرْ ‘‘ میں نصیحت ہے اور ’’اِنَّ الْعَاقِبَةَ لِلْمُتَّقِيْنَ ‘‘ میں تسلی اور خوش خبری ہے۔ 4۔ اس واقعہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا حق ہونا بھی ثابت ہوتا ہے کہ آپ نے اُمّی ہونے کے باوجود نوح علیہ السلام کا واقعہ پورا پورا صحیح سنا دیا جو وحی الٰہی کے بغیر ممکن نہ تھا۔ 5۔ یہ واقعہ اس بات کی دلیل ہے کہ اپنی پوری کوشش کے باوجود اگر کسی صالح آدمی کا بیٹا صالح نہ بن سکے تو باپ اس میں بے قصور ہے۔ نوح علیہ السلام جیسا مہربان اور کامل مربی بھی اگر بیٹے کو راہ راست پر نہ لا سکا تو ہماری تمھاری کیا حیثیت ہے؟ اب اللہ تعالیٰ کی تقدیر اور مشیت پر صبر و رضا کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ (قرطبی) 6۔ قرآن مجید واقعات بیان کرتے وقت ان میں سے انھی حصوں کو نمایاں کرتا ہے جن سے کوئی نصیحت اور فائدہ حاصل ہو رہا ہو۔ ان کے وہ حصے جو اس مقصد سے خاص تعلق نہیں رکھتے انھیں چھوڑ دیتا ہے۔ مثلاً نوح علیہ السلام کی وہ کشتی کتنی مدت میں بنی، اس کا طول و عرض کیا تھا، اس میں سوار ہونے والے جانور کیسے جمع کیے گئے، اس میں کتنے کمرے تھے، کشتی کتنے دن پانی میں رہی، ’’جودی‘‘ پر کشتی سے اترنے کے بعد نوح علیہ السلام نے کہاں اقامت اختیار فرمائی اور طوفان کتنے دن زمین پر برپا رہا۔ رہے وہ قصے کہانیاں جو عام مشہور ہیں، وہ اکثر اسرائیلیات ہیں، جن کی شرع یا عقل سے تائید نہیں ہوتی۔ 7۔ ایک مسئلہ جس پر بہت سے علماء نے بحث کی ہے، یہ بھی ہے کہ طوفان ساری زمین پر آیا تھا یا کچھ حصے پر؟ تفسیر المنار کے مصنف نے اپنے استاد شیخ محمد عبدہ مصری کا فتویٰ نقل کیا ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ قرآن کریم اور احادیث کے ظاہر الفاظ سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ طوفان نوح علیہ السلام کی پوری قوم پر آیا تھا اور ان کے علاوہ اس وقت پوری زمین پر کوئی اور آباد نہ تھا، اس لیے یہ عقیدہ رکھنا ضروری ہے، مگر اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ طوفان پوری زمین پر آیا تھا، کیونکہ اس بات کی کوئی دلیل نہیں کہ پوری زمین قوم نوح سے بھری ہوئی تھی۔ یہ تاریخی مسائل قرآن کے مقاصد میں سے نہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے صریح الفاظ میں کوئی وضاحت نہیں فرمائی۔ اس لیے ہم کہتے ہیں، قرآن کے ظاہر کا تقاضا یہی ہے جو اوپر بیان ہوا، اب اگر کسی علمی تحقیق سے اس کے خلاف کوئی بات ثابت ہو جائے تو اس سے قرآن و حدیث کی کسی قطعی و صریح بات پر کوئی حرف نہیں آتا۔ (الوسیط)