سورة البقرة - آیت 145

وَلَئِنْ أَتَيْتَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ بِكُلِّ آيَةٍ مَّا تَبِعُوا قِبْلَتَكَ ۚ وَمَا أَنتَ بِتَابِعٍ قِبْلَتَهُمْ ۚ وَمَا بَعْضُهُم بِتَابِعٍ قِبْلَةَ بَعْضٍ ۚ وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُم مِّن بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ ۙ إِنَّكَ إِذًا لَّمِنَ الظَّالِمِينَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور یقیناً اگر تو ان لوگوں کے پاس جنھیں کتاب دی گئی ہے، ہر نشانی بھی لے آئے وہ تیرے قبلے کی پیروی نہیں کریں گے اور نہ تو کسی صورت ان کے قبلے کی پیروی کرنے والا ہے اور نہ ان کا بعض کسی صورت بعض کے قبلے کی پیروی کرنے والا ہے اور یقیناً اگر تو نے ان کی خواہشوں کی پیروی کی، اس علم کے بعد جو تیرے پاس آیا ہے، تو بے شک تو اس وقت ضرور ظالموں سے ہوگا۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

مَا تَبِعُوْا قِبْلَتَكَ : یعنی وہ کعبہ کے قبلہ ہونے کو خوب جانتے ہیں ، مگر ان کا عناد اس قدر بڑھا ہوا ہے کہ آپ اس کی حقانیت پر خواہ دنیا بھر کے دلائل پیش کر دیں وہ آپ کے قبلہ کو تسلیم نہیں کریں گے۔ وَ مَاۤ اَنْتَ بِتَابِعٍ قِبْلَتَهُمْ: اور آپ بھی وحی الٰہی کے پابند ہونے کی وجہ سے ان کے قبلہ کو اختیار نہیں کر سکتے۔ ”بِتَابِعٍ“ میں باء کے ساتھ نفی کی تاکید ہو گئی، اس لیے ترجمہ ’’اور نہ تو کسی صورت .... ‘‘ کیا گیا ہے۔ وَ مَا بَعْضُهُمْ بِتَابِعٍ: اور ان کے باہمی عناد کا حال یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کے قبلہ کو پسند نہیں کرتے۔ یہود صخرۂ بیت المقدس کی طرف رخ کرتے ہیں اور نصاریٰ بیت المقدس کی مشرقی جانب۔ ( قرطبی) وَ لَىِٕنِ اتَّبَعْتَ اَهْوَآءَهُمْ:”اَهْوَاءٌ“ کی واحد ”هَوًي“ ہے جس کا معنی خواہش نفس ہے۔ قرآن وسنت کی پیروی تو ﴿مَا جَآءَكَ مِنَ الْعِلْمِ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والے علم کی پیروی ہے، اس کے سوا دین میں جو بھی شامل کیا جائے وہ انسانی خواہش کی پیروی ہے، خواہ وہ یہود و نصاریٰ کی طرف سے آئے، یا ہندوؤں اور سکھوں کی طرف سے، یا مسلمان اپنے پاس سے ایجاد کر لیں ، سب خواہش کی پیروی ہے۔ اس لیے علمائے اسلام اہل بدعت کو عام طور پر ’’اہل اہواء‘‘ کہتے ہیں ۔ صاحب کشاف نے ذکرفرمایا ہے کہ اس آیت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو ان لوگوں کی خواہشات کی پیروی سے منع کرنے کی تاکید کئی وجوہ کی بنا پر کی گئی ہے۔ صاحب کشاف نے دس وجوہ سے اس تاکید کی تفصیل بیان کی ہے۔ مزید دیکھیے تفسیر ابن عاشور۔ اس آیت میں اگرچہ خطاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو ہے مگر مراد امت ہے، علماء اور عوام سب اس میں شامل ہیں ، کیونکہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ایسا کریں تو آپ سے کہا جائے : ﴿اِنَّكَ اِذًا لَّمِنَ الظّٰلِمِيْنَ ﴾ تو امتی تو ایسا کرنے سے بالاولیٰ ظالموں میں سے ہوں گے۔ پھر کیا حال ہو گا ان عالموں کا جو منع کرنے کے بجائے تیجے، ساتے، چالیسویں ، میلاد، تعزیے، عرس اور قوالی وغیرہ میں شرکت کرتے، خود ساختہ وظیفے کرتے، بعض وظیفوں میں قطب کی طرف رخ کرتے اور قبلے کی طرح اس کی تعظیم کرتے اور ان کاموں کو باعث ثواب قرار دیتے ہیں !