قَدْ نَرَىٰ تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ ۖ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا ۚ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۚ وَحَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ ۗ وَإِنَّ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِن رَّبِّهِمْ ۗ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا يَعْمَلُونَ
یقیناً ہم تیرے چہرے کا بار بار آسمان کی طرف پھرنا دیکھ رہے ہیں، تو ہم تجھے اس قبلے کی طرف ضرور پھیر دیں گے جسے تو پسند کرتا ہے، سو اپنا چہرہ مسجد حرام کی طرف پھیر لے اور تم جہاں بھی ہو سو اپنے چہرے اس کی طرف پھیر لو اور بے شک وہ لوگ جنھیں کتاب دی گئی ہے یقیناً جانتے ہیں کہ بے شک ان کے رب کی طرف سے یہی حق ہے اور اللہ اس سے ہرگز غافل نہیں جو وہ کر رہے ہیں۔
1۔ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ: یہ قبلہ بدلنے کا اصل حکم ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ قرآن میں پہلا نسخ قبلے کا ہے۔ [ابن أبی حاتم عن ابن أبی طلحۃ، عن ابن عباس رضی اللّٰہ عنہما ] براء رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بیت المقدس کی طرف منہ کرکے سولہ یا سترہ ماہ نماز پڑھی اور آپ کو پسند یہ تھا کہ آپ کا قبلہ بیت اللہ ہو اور آپ نے پہلی نماز (بیت اللہ کی طرف) عصر کی نماز پڑھی۔ [ بخاری، التفسیر، باب قولہ تعالٰی : ﴿سیقول السفہاء .... ﴾ : ۴۴۸۶ ] آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو بیت اللہ کا قبلہ ہونا اس قدر پسند تھا کہ قبلہ بدلنے کی امید میں بار بار آسمان کی طرف دیکھتے تھے۔ واضح رہے کہ بیت المقدس شام میں ہے اور یہ مدینہ سے شمال کی طرف ہے اور بیت اللہ اس کے بالکل مخالف جنوب کی طرف ہے۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ لوگ قبا میں صبح کی نماز پڑھ رہے تھے کہ ان کے پاس ایک صاحب آئے، انھوں نے کہا، آج رات نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر قرآن اترا ہے اور آپ کو کعبہ کی طرف منہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے، لہٰذا تم بھی اس کی طرف منہ کر لو۔ ان کا رخ شام کی طرف تھا تو انھوں نے گھوم کر کعبہ کی طرف منہ کر لیا۔ [ بخاری، التفسیر، باب: ﴿ولئن أتیت الذین .... ﴾ : ۴۴۹۰ ] اس سے صحابہ کا حدیث رسول بلکہ قرآن کریم کے ثبوت کے لیے ایک معتبر آدمی کی خبر (یعنی خبر واحد) پر اعتماد اور اس پر فوری عمل ثابت ہوتا ہے۔ جو لوگ بعض احادیث کو خبر واحد کہہ کر رد کر دیتے ہیں انھیں غور کرنا چاہیے۔ 2۔وَ حَيْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ شَطْرَهٗ: سفر میں نفل نماز، کشتی میں نماز، حالتِ جنگ میں نماز یا جسے قبلہ معلوم نہ ہو سکے وہ اس سے مستثنیٰ ہیں ، وہ جدھر منہ کر کے نماز پڑھ سکیں پڑھ سکتے ہیں ، فرمایا : ﴿ اَيْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْهُ اللّٰهِ ﴾ [ البقرۃ : ۱۱۵ ] ’’تو تم جس طرف رخ کرو سو وہیں اللہ کا چہرہ ہے۔‘‘ البتہ سفر میں اگر ممکن ہو تو سواری کا رخ قبلہ کی طرف کر کے نفل نماز شروع کر لی جائے، اس کے بعد سواری کا رخ جدھر بھی ہو مضائقہ نہیں ۔ انس رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم جب سفر کرتے اور نفل پڑھنے کا ارادہ کرتے تو اپنی اونٹنی کا رخ قبلہ کی طرف کر کے تکبیر کہتے پھر سواری آپ کا رخ جدھر کو بھی کرتی نماز پڑھتے رہتے۔ [ أبو داؤد، صلاۃ السفر، باب التطوع علی الراحلۃ : ۱۲۲۵، و حسنہ الألبانی ] 3۔ لَيَعْلَمُوْنَ اَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّهِمْ: یعنی یہود کو اپنی کتابوں کی پیشین گوئی کی بنا پر خوب علم ہے کہ نبی آخر الزماں کا قبلہ مسجد حرام ہو گا، مگر وہ کفر و عناد اور حسد کی بنا پر چھپا رہے ہیں ۔ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : ’’یہ لوگ (اہل کتاب) ہم پر کسی چیز پر اتنا حسد نہیں کرتے جتنا جمعہ کے دن پر کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس کی ہدایت دی اور وہ اس سے گمراہ ہو گئے اور اس قبلہ پر جس کی اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہدایت دی اور وہ اس سے گمراہ ہو گئے اور امام کے پیچھے ہمارے آمین کہنے پر۔‘‘ [ أحمد : ۶؍۱۳۵، ح : ۲۵۰۸۲، إسنادہ صحیح ]