وَلَا أَقُولُ لَكُمْ عِندِي خَزَائِنُ اللَّهِ وَلَا أَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَا أَقُولُ إِنِّي مَلَكٌ وَلَا أَقُولُ لِلَّذِينَ تَزْدَرِي أَعْيُنُكُمْ لَن يُؤْتِيَهُمُ اللَّهُ خَيْرًا ۖ اللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا فِي أَنفُسِهِمْ ۖ إِنِّي إِذًا لَّمِنَ الظَّالِمِينَ
اور میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ میں غیب جانتا ہوں اور نہ میں یہ کہتا ہوں کہ بے شک میں ایک فرشتہ ہوں اور نہ میں ان لوگوں کے بارے میں جنھیں تمھاری آنکھیں حقیر سمجھتی ہیں، یہ کہتا ہوں کہ اللہ انھیں ہرگز کوئی بھلائی نہیں دے گا، اللہ اسے زیادہ جاننے والا ہے جو ان کے دلوں میں ہے، یقیناً میں تو اس وقت ظالموں سے ہوں گا۔
1۔ وَ لَاۤ اَقُوْلُ لَكُمْ عِنْدِيْ خَزَآىِٕنُ اللّٰهِ ....: یہ اس بات کا جواب ہے جو ان لوگوں نے کہی تھی کہ ہمیں تو تم اپنے جیسے ایک انسان نظر آتے ہو اور یہ کہ ہم تم کو کسی بات میں اپنے سے برتر نہیں پاتے۔ اس پر نوح علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ہاں میں واقعی تم ہی جیسا ایک بشر ہوں، نہ میرے پاس اللہ تعالیٰ کے خزانے ہیں، نہ میں غیب کی باتیں جانتا ہوں اور نہ میں فرشتہ ہونے کا دعویٰ کرتا ہوں، یعنی اس قسم کی کوئی فوقیت مجھ میں نہیں ہے۔ میرا جو بھی دعویٰ ہے وہ صرف اتنا ہے کہ میں اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں اور اس نے مجھے سیدھے راستے کی ہدایت بخشی ہے۔ میرا یہ دعویٰ ناقابل تردید ہے، اس کی تم جس طرح چاہو آزمائش کر لو۔ 2۔ وَ لَا اَقُوْلُ لِلَّذِيْنَ تَزْدَرِيْۤ اَعْيُنُكُمْ ....: ’’تَزْدَرِيْ‘‘ اس کا مادہ ’’زري‘‘ ہے، ’’زَرَيْتُ عَلَيْهِ ‘‘ میں نے اس پر عیب لگایا۔ باب افتعال میں جا کر افتعال کی تاء کو دال کے ساتھ بدلنے سے ’’اِزْدَرَي يَزْدَرِيْ اِزْدِرَاءً‘‘ بن گیا، جس کا معنی حقیر جاننا ہے۔ (قاموس) یعنی مجھ سے یہ امید نہ رکھو کہ محض تمھیں خوش کرنے کے لیے ان لوگوں کے بارے میں اس قسم کی جاہلانہ بات کہوں گا۔ مطلب یہ ہے کہ مذکورہ چیزیں (اللہ کے خزانوں کا مالک ہونا، عالم الغیب ہونا، فرشتہ ہونا) نبوت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رکھتیں کہ ان کے بغیر نبوت نہیں مل سکتی اور نہ ان چیزوں کے کسی شخص کے پاس نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہر خیر سے خالی ہے اور جو شخص مال دار نہ ہو اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی خیر بھی حاصل نہیں ہو سکتی، بلکہ اللہ تعالیٰ قادر ہے کہ ناتوانوں کو عزت دیتا ہے اور عزت والوں کو دم بھر میں ذلیل کر دیتا ہے۔ اس وقت بھی یہ لوگ اپنے رب پر ایمان اور اس کے رسول کی پیروی کی بدولت تم سے زیادہ باعزت اور شریف ہیں۔ (روح المعانی) 3۔ اَللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا فِيْۤ اَنْفُسِهِمْ : اگر ان کے دلوں میں ایمان اور اخلاص ہے تو اللہ کے ہاں ضرور اجر پائیں گے، تم اور میں مل کر بھی انھیں اس اجر سے محروم نہیں کر سکتے۔ 4۔ اِنِّيْۤ اِذًا لَّمِنَ الظّٰلِمِيْنَ : یعنی اگر میں انھیں خواہ مخواہ ذلیل قرار دوں۔ یہ اشارہ ہے کہ تم انھیں رذالے کہنے میں ظالم ہو، یا یہ کہ اگر میں خزائنِ الٰہی کو جمع کرنے یا غیب کے جاننے اور فرشتہ ہونے کا دعویٰ کروں تو میں ظالموں میں سے ہوں گا۔