وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَىٰ قَوْمِهِ إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُّبِينٌ
اور بلاشبہ یقیناً ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا، بے شک میں تمھارے لیے صاف صاف ڈرانے والا ہوں۔
1۔ وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖ: جن حالات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں توحید کی دعوت پیش کر رہے تھے، وہ چونکہ ویسے ہی حالات تھے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے دوسرے انبیاء علیھم السلام کو پیش آ چکے تھے، اس لیے حسب موقع یہاں سے گزشتہ انبیاء کا ذکر کیا جا رہا ہے اور باقی سورت تقریباً اسی تذکرے سے بھری ہوئی ہے، تاکہ ایک طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمت بندھے، آپ کو اور مسلمانوں کو تسلی ہو کہ انجام کار اللہ کے رسولوں اور اہل حق کی اللہ تعالیٰ کی طرف سے یقیناً مدد ہوتی ہے اور دوسری طرف پہلی قوموں کے اعتراضات اور ان کے انبیاء کے جوابات آپ کے لیے نمونہ بنیں اور آپ کی قوم کو پہلے کفار کے انجام سے ڈرایا جائے۔ 2۔ آدم علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے نبی تھے، وہ اور ان کی اولاد سب موحد اور دین حق پر تھے، پھر شیطان کے بہکانے سے بزرگوں کی پوجا بت پرستی کی صورت میں شروع ہوئی۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے زمین پر سب سے پہلے رسول نوح علیہ السلام بھیجے گئے، جیسا کہ حدیث شفاعت میں ہے اور بت پرستی کے آغاز کی تفصیل سورۂ نوح میں آئے گی۔ نوح علیہ السلام کا ذکر قرآن میں ۴۳ بار آیا ہے۔ 3۔ اِنِّيْ لَكُمْ نَذِيْرٌ مُّبِيْنٌ: نوح علیہ السلام نے صرف ڈرانے کا ذکر اس لیے فرمایا کہ ان کی قوم نے سمع و طاعت کا اظہار ہی نہیں کیا کہ انھیں خوش خبری دی جاتی۔