سَيَقُولُ السُّفَهَاءُ مِنَ النَّاسِ مَا وَلَّاهُمْ عَن قِبْلَتِهِمُ الَّتِي كَانُوا عَلَيْهَا ۚ قُل لِّلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ ۚ يَهْدِي مَن يَشَاءُ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ
عنقریب لوگوں میں سے بے وقوف کہیں گے کس چیز نے انھیں ان کے اس قبلہ سے پھیر دیا جس پر وہ تھے؟ کہہ دے اللہ ہی کے لیے مشرق و مغرب ہے، وہ جسے چاہتا ہے سیدھے راستے کی ہدایت دیتا ہے۔
1۔ براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہجرت کر کے مدینہ پہنچے تو سولہ یا سترہ ماہ تک بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے رہے، پھر آپ کو بیت اللہ کی طرف منہ کرنے کا حکم ہوا۔ [ بخاری، أخبار الأحاد،باب ما جاء فی إجازۃ .... : ۷۲۵۲ ] 2۔اس پر یہود، منافقین اور مشرکین سبھی نے اعتراضات شروع کر دیے کہ اگر وہ پہلا قبلہ درست تھا تو اسے بدلنے کی کیا ضرورت تھی ؟ اور اگر یہ درست ہے تو اتنی دیر بیت المقدس قبلہ کیوں رہا؟ اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب دیا کہ یہ لوگ بے وقوفی کی وجہ سے ایسی باتیں کہہ رہے ہیں ، مشرق یا مغرب کی اپنی کچھ حیثیت نہیں کہ ان کی طرف منہ کرنا باعث ثواب ہو، بلکہ اصل چیز اللہ تعالیٰ کے حکم کی فرماں برداری ہے، کیونکہ مشرق و مغرب دونوں کا مالک وہی ہے۔ وہ جب چاہے، جدھر چاہے منہ کرکے نماز پڑھنے کا حکم دے سکتا ہے۔ تمھارا کام حکم ماننا ہے، کیونکہ صراط مستقیم وہی ہے جس کا وہ حکم دے، مگر اس پر چلنے کی توفیق وہ جسے چاہے دیتا ہے، جو توفیق سے محروم ہیں وہ بے وقوفی سے بے کار باتیں بناتے رہتے ہیں ، اس آیت : ﴿لَيْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ وَ لٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ .... ﴾ [ البقرۃ : ۱۷۷] میں بھی یہی بات بیان ہوئی ہے۔