سورة یونس - آیت 101

قُلِ انظُرُوا مَاذَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ وَمَا تُغْنِي الْآيَاتُ وَالنُّذُرُ عَن قَوْمٍ لَّا يُؤْمِنُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

کہہ تم دیکھو آسمانوں اور زمین میں کیا کچھ موجود ہے۔ اور نشانیاں اور ڈرانے والی چیزیں ان لوگوں کے کام نہیں آتیں جو ایمان نہیں لاتے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

قُلِ انْظُرُوْا مَا ذَا فِي السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ : یعنی ایمان لانے کے لیے زمین و آسمان میں اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کی توحید کی بے شمار نشانیاں موجود ہیں، جیسا کہ فرمایا : ﴿ وَ كَاَيِّنْ مِّنْ اٰيَةٍ فِي السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ يَمُرُّوْنَ عَلَيْهَا وَ هُمْ عَنْهَا مُعْرِضُوْنَ ﴾ [ یوسف : ۱۰۵ ] ’’اور آسمانوں اور زمین میں کتنی ہی نشانیاں ہیں جن پر سے گزرتے ہیں اور وہ ان سے بے دھیان ہوتے ہیں۔‘‘ اور فرمایا : ﴿ وَ فِي الْاَرْضِ اٰيٰتٌ لِّلْمُوْقِنِيْنَ ﴾ [ الذاریات : ۲۰ ] ’’اور زمین میں یقین کرنے والوں کے لیے کئی نشانیاں ہیں۔‘‘ وَ مَا تُغْنِي الْاٰيٰتُ وَ النُّذُرُ عَنْ قَوْمٍ لَّا يُؤْمِنُوْنَ: اس کے دو معنی ہو سکتے ہیں، یعنی وہ لوگ جن کی قسمت ہی میں نہیں کہ وہ ایمان لائیں گے، انھیں نہ نشانیوں سے کچھ فائدہ ہوتا ہے نہ ڈرانے والی چیزوں یا ڈرانے والے پیغمبروں اور داعی حضرات سے۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ جو لوگ طے کر لیتے ہیں کہ چاہے کچھ ہو جائے ہم ہر گز اپنے باپ دادا کا راستہ چھوڑ کر ایمان نہیں لائیں گے، انھیں نشانیوں اور ڈرانے والے پیغمبروں سے کچھ فائدہ نہیں ہوتا۔ ’’النُّذُرُ ‘‘ ’’نَذِيْرٌ ‘‘ کی جمع ہے، ڈرانے والے معجزے ہوں یا آیات یا پیغمبر۔