فَقَالُوا عَلَى اللَّهِ تَوَكَّلْنَا رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَةً لِّلْقَوْمِ الظَّالِمِينَ
تو انھوں نے کہا ہم نے اللہ ہی پر بھروسا کیا، اے ہمارے رب! ہمیں ظالم لوگوں کے لیے آزمائش نہ بنا۔
فَقَالُوْا عَلَى اللّٰهِ تَوَكَّلْنَا ....: انھوں نے پیغمبر کی نصیحت کو نہ صرف قبول کیا بلکہ زبان سے اقرار بھی کیا کہ ہم صرف اللہ ہی پر توکل کرتے ہیں، وہی ہمارا سہارا ہے اور اس کے ساتھ دو دعائیں کیں اور یہ دونوں دعائیں ظالم حکمرانوں کے ظلم سے بچنے کے لیے اکسیر ہیں۔ پہلی دعا یہ کہ اے ہمارے پروردگار! ہمیں ظالم لوگوں کے لیے فتنہ نہ بنا۔ ’’فِتْنَةً ‘‘ کا لفظ مصدر ہے جو ’’فَتَنَ ‘‘ فعل معروف کا مصدر بمعنی اسم فاعل ہو گا، یعنی ’’فَاتِنِيْنَ‘‘ فتنے اور آزمائش میں ڈالنے والے۔ اسی طرح یہ ’’فُتِنَ‘‘ فعل مجہول کا مصدر بمعنی اسم مفعول بھی ہو سکتا ہے، یعنی ’’مَفْتُوْنِيْنَ ‘‘ فتنے میں ڈالے ہوئے۔ پہلی صورت میں معنی ہو گا کہ یا اللہ! تو ہمیں ان ظالموں کو فتنے میں ڈالنے والے، یعنی کفر کے فتنے میں ڈالنے کا باعث نہ بنا کہ اگر یہ ہم پر مسلط رہے اور ہم مسلسل ان کے ظلم کا نشانہ ہی بنے رہے تو یہ اپنے سچے ہونے اور حق پر ہونے کے فتنے میں پڑ جائیں گے اور کفر میں مزید پختہ ہو جائیں گے اور سمجھیں گے کہ اگر مسلمان سچے اور حق پر ہوتے تو ان کا رب ضرور ان کی مدد کرتا، جیسا کہ ایک شاعر نے کہا ہے۔ حق پرستوں کی اگر کی تو نے دل جوئی نہیں طعنہ دیں گے بت کہ مسلم کا خدا کوئی نہیں اور ’’فِتْنَةً ‘‘ کو مصدر مجہول ماننے کی صورت میں معنی یہ ہو گا کہ ہمیں ان ظالموں کے لیے (مفتون) فتنے میں پڑ جانے والے نہ بنا کہ ان کے ظلم و تشدد کی وجہ سے ہمارا کوئی شخص فتنۂ ارتداد میں پڑ کر ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ دوسری دعا یہ کی کہ پروردگارا! تو ہمیں صرف ان کے لیے فتنے کا باعث بننے ہی سے نہ بچا، بلکہ اپنی رحمت کے ساتھ ان کافروں سے ہمیں نجات اور آزادی بھی دلا۔ اس دعا سے معلوم ہوا کہ اللہ کے بندوں کو ایمان اور آخرت کی کتنی فکر تھی کہ وہ یہ بھی نہیں چاہتے تھے کہ وہ کسی شخص کے کفر میں مبتلا رہنے کا باعث بنیں اور نہ یہ چاہتے تھے کہ کسی کے ظلم کی وجہ سے خود فتنے میں پڑ کر اپنا ایمان ضائع کر بیٹھیں۔