الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ
وہ جو ایمان لائے اور بچا کرتے تھے۔
الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ كَانُوْا يَتَّقُوْنَ: کچھ لوگوں نے اولیاء اللہ کچھ انوکھی قسم کے مافوق الفطرت آدمیوں کو سمجھ رکھا ہے، جن سے عجیب و غریب کرامتیں اور شعبدے ظاہر ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے متعلق پھر یہ بھی ضروری نہیں سمجھا جاتا ہے کہ دیکھا جائے ان کا عقیدہ کیا ہے؟ وہ موحد ہیں یا مشرک، وہ نماز بھی پڑھتے ہیں یا نہیں، پاک دامن اور حلال و حرام کا خیال رکھنے والے بھی ہیں یا نہیں۔ حالانکہ اس قسم کی چیزیں اور شعبدے تو شیطانوں اور ان کے چیلوں مثلاً ہندو جوگیوں سے بھی ظاہر ہوتے رہتے ہیں۔ مسمریزم اور ہپناٹزم کے ماہرین بھی لوگوں کو بے وقوف بناتے رہتے ہیں، خواہ وہ غیر مسلم ہی ہوں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے اولیاء، یعنی دوستوں کی پہچان خود بتائی کہ ’’الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ‘‘ یعنی وہ لوگ جنھوں نے قرآن و سنت کے مطابق اپنے اعتقاد کو درست کر لیا۔ ’’ وَ كَانُوْا يَتَّقُوْنَ ‘‘ اور ہمیشہ گناہوں سے بچتے رہے اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی فرماں برداری کرتے رہے۔ لفظ ’’كَانَ ‘‘ تقویٰ کے استمرار اور ہمیشگی پر دلالت کر رہا ہے۔ معلوم ہوا کہ ہر انسان جو عقیدہ و عمل درست کر لے اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرلے وہ اللہ کا ولی ہے۔ لیکن لوگ جنگلوں اور پہاڑوں کے عافیت خانوں میں یا خانقاہوں کے حجروں میں ولیوں کو ڈھونڈتے پھرتے ہیں، مگر اللہ کے راستے میں جان و مال قربان کرنے والوں سے بڑھ کر اللہ کا ولی (دوست) کون ہو سکتا ہے۔ ولی وہ نہیں جسے سُرخاب کا پر لگا ہوا ہو، بلکہ اللہ تعالیٰ خود اپنے فرمان کے مطابق تمام اہل ایمان کا ولی ہے، فرمایا : ﴿ اَللّٰهُ وَلِيُّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ﴾ [ البقرۃ : ۲۵۷] ’’اللہ ان لوگوں کا ولی (دوست) ہے جو ایمان لائے۔‘‘ اور دیکھیے سورۂ مائدہ (۵۵) اور یہ تو ظاہر ہے کہ اللہ جن کا ولی ہے وہ اللہ کے ولی ہیں، کیونکہ دوستی دونوں طرف سے ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے ولیوں ہی کا ولی ہے، دشمنوں کا ولی ہر گز نہیں۔ پھر دوستی اور دشمنی کے درمیان کوئی مرتبہ نہیں، کوئی بھی شخص یا اللہ کا دوست ہو گا یا دشمن، اب آپ خود سوچ لیں کہ آپ اللہ کے دوست ہیں یا دشمن۔ اللہ کے یہ دوست ہر طبقے میں موجود ہیں، علماء، تاجر، صنعت کار، مزدور، کاشت کار، غرض ضروری نہیں کہ پیر یا مولوی ہی ولی ہو، بلکہ ہر طبقے میں ایمان اور تقویٰ والے لوگ اللہ کے ولی ہیں۔ البتہ ایسا شخص جو غیب کی باتیں بتاتا ہو، یا کائنات میں قدرت و اختیار رکھنے کی ڈینگ مارتا ہو، یا لوگ اس کے سامنے اس کی یہ شان بیان کرتے ہوں اور وہ چپ رہ کر ان کی تائید کرتا ہو، وہ رحمان کا ولی ہرگز نہیں، وہ تو شیطان کا ولی ہے۔ ہاں اس میں شک نہیں کہ اولیاء کے درجے یقیناً مختلف ہیں، اللہ کے خلیل ابراہیم علیہ السلام اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسی خلت، ولایت اور دوستی دوسرے رسولوں کو بھی حاصل نہیں ہو سکی، عام آدمی کو کیسے مل سکتی ہے، پھر انبیاء میں بھی درجے ہیں، فرمایا : ﴿ تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍ ﴾ [ البقرۃ : ۲۵۳ ] ’’یہ رسول، ہم نے ان کے بعض کو بعض پر فضیلت دی۔‘‘ اسی طرح اہل ایمان کے ایمان و تقویٰ کے فرق کے مطابق ان کی ولایت میں بھی فرق ہو گا، ہاں کوئی بھی مخلص مومن اللہ کی ولایت سے یکسر محروم نہیں اور یہ دوستی اپنے درجے کے مطابق قیامت کے دن کسی نہ کسی وقت ضرور کام آئے گی۔ پھر کافر بھی خواہش کریں گے کہ کاش! ہم کسی درجے کے بھی مسلمان ہوتے، فرمایا : ﴿رُبَمَا يَوَدُّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَوْ كَانُوْا مُسْلِمِيْنَ ﴾ [ الحجر : ۲ ] ’’بہت بار چاہیں گے وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا کاش! وہ مسلمان ہوتے۔‘‘ یعنی جن کے دل میں ذرہ برابر یا اس سے بھی کم ایمان ہو گا وہ جہنم سے نکل کر جنت میں جائیں گے تو کفار چاہیں گے کاش! دنیا میں ہم بھی مسلم بن جاتے، خواہ کسی درجے کے، تاکہ ہمیشہ کے لیے تو جہنم میں نہ رہتے۔