سورة یونس - آیت 58

قُلْ بِفَضْلِ اللَّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَٰلِكَ فَلْيَفْرَحُوا هُوَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

کہہ دے (یہ) اللہ کے فضل اور اس کی رحمت ہی سے ہے، سو اسی کے ساتھ پھر لازم ہے کہ وہ خوش ہوں۔ یہ اس سے بہتر ہے جو وہ جمع کرتے ہیں۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

قُلْ بِفَضْلِ اللّٰهِ وَ بِرَحْمَتِهٖ : اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے مراد قرآن مجید، دین حق، خاتم النبیین پیغمبر، جنت اور تمام اخروی نعمتیں ہیں۔ حرف باء ’’بِفَضْلِ اللّٰهِ ‘‘ اور ’’بِرَحْمَتِهٖ ‘‘ دونوں پر آیا ہے، مطلب یہ کہ آخرت کی ہر ہر نعمت مستقل طور پر اپنی اپنی جگہ اس لائق ہے کہ اہل ایمان اس پر خوش ہوں۔ فَبِذٰلِكَ : اس فاء سے محذوف شرط کی طرف اشارہ ہے کہ اگر کوئی چیز حقیقی خوشی کے قابل ہے اور اگر تمھیں خوش ہونا ہے تو پھر یہ چیز ہے جس پر خوش ہونا چاہیے۔ ’’ فَبِذٰلِكَ ‘‘ پہلے لانے سے حصر بھی پیدا ہو گیا کہ صرف یہی اصل خوشی کی چیز ہے، باقی تمام چیزیں فانی ہیں اور سراسر دھوکا۔ فَلْيَفْرَحُوْا: مفردات القرآن میں ہے کہ ’’فَرَحٌ‘‘ کا معنی ہے کسی جلدی مل جانے والی لذت سے سینے کا کھل جانا، خوش ہو جانا۔ یہ لفظ اکثر بدنی لذتوں سے حاصل ہونے والی خوشی پر بولا جاتا ہے، اس لیے فرمایا : ﴿ وَ لَا تَفْرَحُوْا بِمَاۤ اٰتٰىكُمْ ﴾ [ الحدید : ۲۳ ] ’’اور نہ اس پر پھول جاؤ جو اس نے تمھیں دیا ہے۔‘‘ اور فرمایا : ﴿وَ فَرِحُوْا بِالْحَيٰوةِ الدُّنْيَا ﴾ [الرعد : ۲۶ ] ’’اور وہ دنیا کی زندگی پر خوش ہو گئے۔‘‘ اور فرمایا : ﴿ حَتّٰۤى اِذَا فَرِحُوْا بِمَاۤ اُوْتُوْۤا اَخَذْنٰهُمْ بَغْتَةً ﴾ [الأنعام : ۴۴ ] ’’یہاں تک کہ جب وہ ان چیزوں کے ساتھ خوش ہو گئے جو انھیں دی گئی تھیں ہم نے انھیں اچانک پکڑ لیا۔‘‘ اور فرمایا : ﴿ اِذْ قَالَ لَهٗ قَوْمُهٗ لَا تَفْرَحْ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الْفَرِحِيْنَ ﴾ [القصص : ۷۶ ] ’’جب اس (قارون) کو اس کی قوم نے کہا، مت پھول، بے شک اللہ پھولنے والوں سے محبت نہیں رکھتا۔‘‘ ’’فَرَحٌ‘‘ کی اجازت صرف اللہ کے اس فرمان میں دی گئی ہے : ﴿ فَبِذٰلِكَ فَلْيَفْرَحُوْا ﴾ یعنی زیر تفسیر آیت میں۔ [مفردات القرآن للراغب ] معلوم ہوا فرح دل کی خوشی کا نام ہے، اب بعض لوگوں نے اس آیت سے میلاد کے جلوس کے لیے دلیل نکالی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کا فضل ہیں، لہٰذا ان کے یوم ولادت پر خوشی منانی چاہیے، اس لیے یہ یوم عید ہے اور تیسری بلکہ سب سے بڑی عید ہے۔ ہمارے یہ بھائی اگر ایک دو باتیں مدنظر رکھیں تو کبھی آیت کے مفہوم میں اتنی تحریف کرکے بدعت کے لیے دلیل نہ گھڑیں۔ ایک تو یہ کہ ’’فَرَحٌ‘‘ کا معنی خوشی منانا تو کسی لغت میں نہیں، اس کا معنی تو خوش ہونا ہے، یہ دل کی خوشی کی کیفیت کا نام ہے نہ کہ جلوس نکال کر عید منانے کا۔ دوسرا یہ کہ یہ خوشی تو ہر وقت چوبیس گھنٹے، پورا سال اور ساری عمر مومن کے دل میں رہتی ہے اور اس کے سینے کو ٹھنڈا رکھتی ہے، آپ کو یہ کس نے کہا کہ یہ سال میں صرف ایک دن کے لیے ہے، ایک شاعر نے اپنی خوشی کا اظہار کس خوبصورتی سے کیا ہے نہ بہ نظم شاعر خوش غزل، نہ بہ نثرِ ناثر بے بدل بغلامیٔ شہ عزوجل و بہ عاشقی نبی خوشم ’’میں نہ کسی بہترین غزل گو شاعر کے شعروں پر خوش ہوں اور نہ کسی بے مثال نثر لکھنے والے کی نثر پر، بلکہ میں تو صرف اللہ بادشاہ عزوجل کا غلام ہونے پر اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھنے پر خوش ہوں۔‘‘ اللہ تعالیٰ یہ خوشی ہمیشہ ہمارے نصیب میں رکھے۔ آمین! هُوَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُوْنَ : یعنی یہ دنیا کے سازو سامان سے کہیں بہتر ہے جو وہ جمع کرتے ہیں، کیونکہ وہ مال و دولت اور جاہ و شرف دنیا میں کبھی کام آتا ہے، کبھی نہیں۔ اگر کام آتا بھی ہے تو چند دن کے لیے، پھر وہ چیز جو چھن جانے والی ہے اس پر خوشی کیسی؟ حسن، قوت، جوانی، مال و دولت، عز و جاہ کیا ہی دل لبھانے والی چیزیں ہیں، مگر کیا کیا جائے کہ ان میں سے باقی رہنے والی ایک بھی نہیں، فرمایا : ﴿ مَا عِنْدَكُمْ يَنْفَدُ وَ مَا عِنْدَ اللّٰهِ بَاقٍ ﴾ [ النحل : ۹۶ ] ’’جو کچھ تمھارے پاس ہے وہ ختم ہو جائے گا اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ باقی رہنے والا ہے۔‘‘ فانی کو باقی سے کیا نسبت ؟