وَلَوْ أَنَّ لِكُلِّ نَفْسٍ ظَلَمَتْ مَا فِي الْأَرْضِ لَافْتَدَتْ بِهِ ۗ وَأَسَرُّوا النَّدَامَةَ لَمَّا رَأَوُا الْعَذَابَ ۖ وَقُضِيَ بَيْنَهُم بِالْقِسْطِ ۚ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ
اور اگر فی الواقع ہر شخص کے لیے جس نے ظلم کیا ہے، وہ سب کچھ ہو جو زمین میں ہے تو وہ اسے ضرور فدیے میں دے دے اور وہ پشیمانی کو چھپائیں گے، جب عذاب کو دیکھیں گے اور ان کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کیا جائے گا اور وہ ظلم نہیں کیے جائیں گے۔
1۔ وَ اَسَرُّوا النَّدَامَةَ لَمَّا رَاَوُا الْعَذَابَ : یعنی جس عذاب کا وہ ساری عمر مذاق اڑاتے رہے جب وہ ان کی توقع کے بالکل خلاف یکایک سامنے آ جائے گا تو ان کی عجیب کیفیت ہو گی، ایک طرف وہ سخت شرمندہ ہوں گے اور ان کے ضمیر انھیں کوس رہے ہوں گے، لیکن دوسری طرف وہ اپنی شرمندگی کو اپنے ساتھیوں اورماننے والوں سے چھپانا بھی چاہیں گے کہ کہیں وہ ملامت نہ کریں، اس لیے دل ہی دل میں شرمندہ ہوں گے اور بظاہر مطمئن بننے کی کوشش کریں گے۔ قاموس میں لکھا ہے کہ ’’اَسَرَّهُ ‘‘ اضداد میں سے ہے، اس کا معنی چھپانا بھی ہے اور ظاہر کرنا بھی۔ دوسرا معنی یہ بنے گا کہ وہ عذاب دیکھیں گے تو ندامت کا اظہار کریں گے۔ 2۔ وَ هُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ: یعنی یہ عذاب ان کے اعمال ہی کا نتیجہ ہو گا، اس لیے وہ عین انصاف ہو گا اور ان پر کسی طرح ظلم نہیں ہو گا۔