سورة یونس - آیت 34

قُلْ هَلْ مِن شُرَكَائِكُم مَّن يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ ۚ قُلِ اللَّهُ يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ ۖ فَأَنَّىٰ تُؤْفَكُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

کہہ دے کیا تمھارے شریکوں میں سے کوئی ہے جو پیدائش کی ابتدا کرتا ہو، پھر اسے دوبارہ بناتا ہو؟ کہہ دے اللہ ہی پیدائش کی ابتدا کرتا ہے، پھر اسے دوبارہ بناتا ہے، تو تم کہاں بہکائے جاتے ہو؟

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

قُلْ هَلْ مِنْ شُرَكَآىِٕكُمْ مَّنْ يَّبْدَؤُا الْخَلْقَ....: ’’تُؤْفَكُوْنَ ‘‘ ’’اِفْكٌ‘‘ کا معنی ہے کسی کو کسی چیز سے پھیر دینا، ہٹا دینا۔ اس لیے جھوٹ اور بہتان کو بھی ’’اِفْكٌ‘‘ کہتے ہیں، کیونکہ اس میں بھی سننے والے کو اصل بات سے پھیر دیا جاتا ہے۔ یعنی آپ ان سے پوچھیں کیا تمھارا کوئی شریک ایسا ہے جو خلق کی ابتدا کرتا ہو، پھر اسے دوبارہ بنائے؟ جیسا کہ اللہ نے انسان کو مٹی سے، پھر نطفہ، پھر علقہ، غرض تمام منازل سے گزار کر پیدا کیا، اسی طرح ساری مخلوق کی ابتدا اس نے کی اور دوبارہ بھی وہی بنائے گا۔ وہ جواب میں خاموشی اختیار کریں گے، اگر کوئی ایسا شریک ہے تو اس کا نام لو۔ اب نہ وہ ایسے شریک کا نام لے سکتے ہیں، کیونکہ خود مان چکے ہیں کہ خالق اللہ تعالیٰ ہی ہے اور نہ وہ یہ کہنے کے لیے تیار ہیں کہ ہمارے شرکاء میں سے کوئی ایسا نہیں، کیونکہ اس سے ان کے شرکاء کی حقیقت کھلتی اور ان کی بے بسی ظاہر ہوتی ہے، اس لیے وہ جواب ہی نہیں دیں گے۔ سو اگر وہ جواب نہ دیں تو آپ خود فرمائیں کہ وہ صرف اللہ تعالیٰ ہے جو پہلے پیدا کرتا ہے دوبارہ بھی وہی اٹھائے گا۔ پھر اس کے باوجود تم کیسے گوارا کرتے ہو کہ سیدھے راستے، یعنی توحید کو چھوڑ کر صاف گمراہی، یعنی شرک کی طرف پھیر دیے جاؤ جو سراسر افک (جھوٹ) ہے۔