سورة یونس - آیت 20

وَيَقُولُونَ لَوْلَا أُنزِلَ عَلَيْهِ آيَةٌ مِّن رَّبِّهِ ۖ فَقُلْ إِنَّمَا الْغَيْبُ لِلَّهِ فَانتَظِرُوا إِنِّي مَعَكُم مِّنَ الْمُنتَظِرِينَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور وہ کہتے ہیں اس پر اس کے رب کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نہ اتاری گئی؟ سو کہہ دے غیب تو صرف اللہ کے پاس ہے، پس انتظار کرو، بے شک میں (بھی) تمھارے ساتھ انتظار کرنے والوں سے ہوں۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ يَقُوْلُوْنَ لَوْ لَا اُنْزِلَ عَلَيْهِ اٰيَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ : مثلاً یہ مکہ کے سب پہاڑ سونے کے کر دیتا، ہمارے باپ دادا کو زندہ کرکے ہمارے سامنے لا کھڑا کرتا، یا کوئی فرشتہ اتار دیتا جو اس کے ساتھ بازاروں اور گلی کوچوں میں چل پھر کر اعلان کرتا کہ واقعی محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو اللہ ہی نے اپنا پیغمبر بنا کر دنیا میں بھیجا ہے۔ سورۂ بنی اسرائیل (۹۰تا ۹۳) میں ان کی معجزوں کی کئی فرمائشیں ذکر ہوئی ہیں۔ فَقُلْ اِنَّمَا الْغَيْبُ لِلّٰهِ....: یعنی اللہ کے سوا کوئی غیب کی بات نہیں جانتا، لہٰذا مجھے نہیں معلوم کہ وہ اس قسم کی کوئی نشانی اتارے گا کہ نہیں اور اگر اتارے گا تو کب اتارے گا۔ نشانی اتارنا یا نہ اتارنا اس کی مرضی پر موقوف ہے، اگر تم سمجھتے ہو کہ وہ نشانی اتارے گا تب تم ایمان لاؤ گے تو بیٹھے انتظار کرتے رہو، میں بھی دیکھوں گا تمھارا یہ مطالبہ پورا ہوتا ہے یا نہیں۔ (مگر تمھارے جیسے لوگوں کے متعلق تجربہ یہی ہے کہ وہ معجزہ دیکھ کر بھی ایمان نہیں لاتے، بلکہ ایمان نہ لانے کا بہانہ بنانے کے لیے معجزے کو بھی جھٹلا دیتے ہیں۔ دیکھیے انعام : ۷، ۱۱۱۔ بنی اسرائیل : ۵۹)۔