إِنَّ رَبَّكُمُ اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ ۖ يُدَبِّرُ الْأَمْرَ ۖ مَا مِن شَفِيعٍ إِلَّا مِن بَعْدِ إِذْنِهِ ۚ ذَٰلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوهُ ۚ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ
بے شک تمھارا رب اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا، پھر وہ عرش پر بلند ہوا۔ ہر کام کی تدبیر کرتا ہے۔ کوئی سفارش کرنے والا نہیں مگر اس کی اجازت کے بعد، وہی اللہ تمھارا رب ہے، سو اس کی عبادت کرو۔ تو کیا تم نصیحت حاصل نہیں کرتے۔
1۔ اِنَّ رَبَّكُمُ اللّٰهُ الَّذِيْ....: نبوت کے اثبات کے بعد توحید و قیامت کے دلائل شروع ہوتے ہیں۔ توحید کی پہلی اور اظہر من الشمس دلیل جو قرآن بار بار بیان کرتا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کا آسمان و زمین اور ہر چیز کا خالق و مالک، رب اور مدبر ہونا ہے۔ دیکھیے سورۂ بقرہ (۲۱، ۲۲) یہ بات مکہ کے مشرک بھی مانتے تھے۔ دیکھیے سورۂ مومنون (۸۴ تا ۸۹) جب رب وہی ہے تو عبادت کسی اور کی کیوں کی جائے۔ اس آیت میں اور دوسرے بہت سے مقامات پر اللہ تعالیٰ کی ربوبیت اور دوسری صفات کو اس کے واحد معبود برحق ہونے کی دلیل بنایا ہے۔ 2۔ فِيْ سِتَّةِ اَيَّامٍ: اس آیت میں دہر یہ کا بھی رد ہے جو رب تعالیٰ کے وجود ہی کے منکر ہیں، جب معمولی سے معمولی چیز بنانے والے کے بغیر نہیں بنتی تو سمجھ لو کہ اتنی بڑی کائنات اور اس کا عظیم الشان نظام، جس میں کوئی حادثہ یا تصادم نہیں، اسے بنانے والا تمھارا رب ہی ہے۔ چھ دنوں سے مراد یا تو وہ دن ہیں جن میں سے ایک دن ہمارے ہزار سال کے برابر ہے، فرمایا : ﴿وَ اِنَّ يَوْمًا عِنْدَ رَبِّكَ كَاَلْفِ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ ﴾ [ الحج : ۴۷ ] ’’اور بے شک ایک دن تیرے رب کے ہاں ہزار سال کے برابر ہے، اس گنتی سے جو تم شمار کرتے ہو۔‘‘ یا ہمارے چھ دنوں کے برابر مدت مراد ہے، کیونکہ یہ دن رات تو سورج کی پیدائش کے بعد وجود میں آئے۔ (واللہ اعلم) اس سے اللہ تعالیٰ کی حکمت تدریج بھی ظاہر ہو رہی ہے، کیونکہ وہ چاہتا تو سب کچھ ایک لمحے میں’’كُنْ‘‘ کہہ کر پیدا فرما لیتا، مگر اس کی حکمت کا تقاضا یہی تھا کہ زمین و آسمان کو مرحلہ وار پیدا فرمائے۔ اس میں ہمارے لیے بھی ہر کام آرام و اطمینان کے ساتھ کرنے کا سبق ہے۔ کائنات کی اکثر اشیاء پر غور کریں تو وہ چھ مرحلوں سے گزر کر مکمل ہوئی ہیں، مثلاً انسان کی پیدائش کے لیے دیکھیے سورۂ مومنون (۱۲ تا ۱۴)۔ 3۔ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَى الْعَرْشِ....: پھر عر ش پر بلند ہوا اور وہاں رہ کر اسے کائنات کی تدبیر کا مرکز بنایا۔ نیز دیکھیے سورۂ اعراف (۵۴) ’’يُدَبِّرُ الْاَمْرَ ‘‘ سے معلوم ہوا کہ پیدا کرنے کے بعد اس کا سارا اختیار اور تدبیر و انتظام بھی اسی کے ہاتھ میں ہے۔ مشرکین نے اختیار کچھ اور ہستیوں کے پاس سمجھ لیا، بھلا پیدا کرنے کے بعد اپنی ملکیت و اختیار کسی دوسرے کو کون دیتا ہے، پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ ملکیت و اختیار بے بس مخلوق کو دے دے جو اپنا آپ نہیں سنبھال سکتی، حقیقت یہی ہے کہ مشرک سے بڑھ کر بے عقل کوئی نہیں ہو سکتا۔ دیکھیے سورۂ روم (۲۸)۔ 4۔ مَا مِنْ شَفِيْعٍ اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ اِذْنِهٖ: کفار اور ان کے نقش قدم پر چلنے والوں کا خیال تھا اور ہے کہ کچھ ہستیاں ایسی ہیں جو مالک تو نہیں، مگر وہ اللہ تعالیٰ سے جو چاہیں کروا سکتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کو ان کی محبت کے ہاتھوں یا ان کی غیبی قوت سے مجبور ہو کر ان کی بات اور سفارش ماننا پڑتی ہے۔ اس لیے وہ اللہ تعالیٰ کے بجائے ان سے التجائیں کرتے اور ان سے مرادیں مانگتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی صاف نفی فرما دی۔ ہاں، خود اللہ تعالیٰ کسی کو عزت بخشنے کے لیے اسے سفارش کی اجازت دے دے تو وہ سفارش کر سکے گا، مگر صرف اس کے لیے جس کے حق میں اجازت ملے گی۔ اس میں اس کا اپنا اختیار کچھ بھی نہیں ہو گا۔ یہ مضمون کہ اللہ تعالیٰ کے حضور کوئی شخص اس کی اجازت کے بغیر شفاعت نہیں کر سکے گا قرآن مجید کی متعدد آیات میں بیان ہوا ہے، مثلاً دیکھیے سورۂ بقرہ (۲۵۵)، طہ (۱۰۹)، سبا (۲۳) اور نجم (۲۶) بعض مقامات پر اللہ تعالیٰ نے سرے سے شفاعت ہی کی نفی کی ہے، جیسے فرمایا : ﴿ فَمَا تَنْفَعُهُمْ شَفَاعَةُ الشّٰفِعِيْنَ ﴾ [ المدثر : ۴۸ ] ’’پس انھیں سفارش کرنے والوں کی سفارش نفع نہیں دے گی۔‘‘ اور فرمایا: ﴿ وَ لَا يُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَةٌ ﴾ [ البقرۃ : ۴۸، ۱۲۳] ’’اور کسی جان سے کوئی سفارش قبول نہ کی جائے گی۔‘‘ وہاں یا تو کفار کا ذکر ہے کہ ان کی سفارش فائدہ نہیں دے گی، یا اجازت کے بغیر سفارش مراد ہے، ورنہ امت کے گناہ گاروں کے حق میں شفاعت تو صحیح احادیث سے ثابت ہے اور یہ بھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ ’’اِلَّا بِاِذْنِهٖ ‘‘ والی آیات سے بھی یہ شفاعت ثابت ہو رہی ہے، مگر یہ شفاعت اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بعد ہی ہو گی۔ 5۔ فَاعْبُدُوْهُ : عبادت کا معنی ’’پوجا کرنا‘‘ بھی ہے اور پوری زندگی ’’عبد ‘‘ یعنی اس کا فرماں بردار غلام (بندہ) بن کر گزارنے کو بھی عبادت کہا جاتا ہے اور حاجت روائی کے لیے کسی غیبی قوت کے پکارنے کو بھی عبادت کہا جاتا ہے۔ قرآن نے ہر قسم کی عبادت کو اللہ کے ساتھ خاص کیا ہے، پس ’’فَاعْبُدُوْهُ ‘‘ کے معنی ہیں اسی کی پوجا کرو، اسی کو مشکلات دور کرنے کے لیے پکارو اور پوری زندگی اسی کی بندگی (غلامی) میں بسر کرو۔ زندگی کے کسی شعبہ میں بھی اگر تم کسی اور کی بندگی اختیار کرو گے تو گویا اسے اللہ تعالیٰ کی عبادت میں شریک ٹھہراؤ گے۔ 6۔ اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ: یہ اصل میں ’’ تَتَذَكَّرُوْنَ ‘‘ تھا، یہاں فکر کے بجائے ذکر کی دعوت دی ہے۔ ذکر یاد کرنے کو کہتے ہیں، نصیحت کے لیے بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے۔ مقصد ہے کہ اللہ واحد ہی کو عبادت کے لائق سمجھنے کے لیے لمبی چوڑی فکر اور سوچ کی ضرورت نہیں، جو کچھ تمھارے گردوپیش ہے اور جو کچھ تمھارے ذہن میں موجود ہے اسی کو یاد کرو، نصیحت کے لیے وہی کافی ہے۔