أَوَلَا يَرَوْنَ أَنَّهُمْ يُفْتَنُونَ فِي كُلِّ عَامٍ مَّرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ ثُمَّ لَا يَتُوبُونَ وَلَا هُمْ يَذَّكَّرُونَ
اور کیا وہ نہیں دیکھتے کہ بے شک وہ ہر سال ایک یا دو مرتبہ آزمائش میں ڈالے جاتے ہیں، پھر بھی وہ نہ توبہ کرتے ہیں اور نہ ہی وہ نصیحت پکڑتے ہیں۔
اَوَ لَا يَرَوْنَ اَنَّهُمْ يُفْتَنُوْنَ....: اکثر جنگ و جہاد کے وقت منافق معلوم ہو جاتے تھے (مگر پھر بھی وہ نفاق پر قائم رہتے تھے)۔ (موضح) اسی طرح ہر آدمی پر کوئی نہ کوئی آزمائش بیماری یا خوف وغیرہ کی صورت میں ہر سال ایک دو مرتبہ آتی رہتی ہے، تاکہ اسے سوچنے کا موقع ملے، فرمایا : ﴿ وَ لَنُذِيْقَنَّهُمْ مِّنَ الْعَذَابِ الْاَدْنٰى دُوْنَ الْعَذَابِ الْاَكْبَرِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُوْنَ ﴾ [ السجدۃ : ۲۱ ] ’’اور یقیناً ہم انھیں قریب ترین عذاب کا کچھ حصہ سب سے بڑے عذاب سے پہلے ضرور چکھائیں گے، تاکہ وہ پلٹ آئیں۔‘‘ سعادت مندوں کو اس سے توبہ اور نصیحت حاصل کرنے کی توفیق ملتی ہے، مگر منافق محروم رہتا ہے۔ پہلا معنی اس مقام پر زیادہ موزوں ہے۔