وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِلَّ قَوْمًا بَعْدَ إِذْ هَدَاهُمْ حَتَّىٰ يُبَيِّنَ لَهُم مَّا يَتَّقُونَ ۚ إِنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ
اور اللہ کبھی ایسا نہیں کہ کسی قوم کو اس کے بعد گمراہ کر دے کہ انھیں ہدایت دے چکا ہو، یہاں تک کہ ان کے لیے وہ چیزیں واضح کر دے جن سے وہ بچیں۔ بے شک اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔
وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِيُضِلَّ قَوْمًۢا....: اس میں ان مسلمانوں کو تسلی دی ہے جنھوں نے اوپر کی آیت کے نزول سے پہلے اپنے کافر رشتہ داروں کے لیے دعائے مغفرت کی تھی۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی پر اس کے مسلمان ہونے کے بعد گمراہ ہونے کا حکم نہیں لگاتا جب تک اس کے لیے یہ واضح نہ کر دے کہ فلاں کام منع ہے اس سے بچ جاؤ، اگر پھر بھی وہ اس پر اصرار کرے تو گناہ گار بھی ہے اور شامتِ اعمال کے نتیجے میں اس کا رخ بھی گمراہی کی طرف پھیر دیا جاتا ہے۔ معلوم ہوا جانتے ہوئے نافرمانی گمراہی کا سبب بن سکتی ہے، اگر ابھی کسی کام سے منع ہی نہیں کیا گیا تو اس کے ارتکاب پر اللہ تعالیٰ کبھی گرفت کرنے والا نہیں، کیونکہ وہ خوب جانتا ہے کہ کوئی بھی کام کرنے والا اسے لاعلمی میں کر رہا ہے یا دیدہ و دانستہ، لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ نے پہلے جو استغفار مشرکین کے لیے کیا اس پر کوئی مؤاخذہ نہیں۔