سورة التوبہ - آیت 107

وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مَسْجِدًا ضِرَارًا وَكُفْرًا وَتَفْرِيقًا بَيْنَ الْمُؤْمِنِينَ وَإِرْصَادًا لِّمَنْ حَارَبَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ مِن قَبْلُ ۚ وَلَيَحْلِفُنَّ إِنْ أَرَدْنَا إِلَّا الْحُسْنَىٰ ۖ وَاللَّهُ يَشْهَدُ إِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور وہ لوگ جنھوں نے ایک مسجد بنائی نقصان پہنچانے اور کفر کرنے (کے لیے) اور ایمان والوں کے درمیان پھوٹ ڈالنے (کے لیے) اور ایسے لوگوں کے لیے گھات کی جگہ بنانے کے لیے جنھوں نے اس سے پہلے اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کی اور یقیناً وہ ضرور قسمیں کھائیں گے کہ ہم نے بھلائی کے سوا ارادہ نہیں کیا اور اللہ شہادت دیتا ہے کہ بے شک وہ یقیناً جھوٹے ہیں۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ الَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا مَسْجِدًا ضِرَارًا....: یہ منافقین کے ایک اور قبیح کام کا ذکر ہے کہ انھیں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف منصوبے اور سازشیں بنانے کے لیے جمع ہونے اور اپنے راز مخفی رکھنے کے لیے کوئی موزوں جگہ نہیں ملتی تھی، چنانچہ انھوں نے مسجد قبا کے ساتھ ہی ایک مسجد بنائی جس کے بنانے میں اللہ تعالیٰ نے ان کے چار مقصد بیان فرمائے ہیں۔ چاروں مقصد مصدر کے لفظ کے ساتھ آئے ہیں : (1) ’’ضِرَارًا ‘‘ یعنی یہ مسجد اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے نہیں بلکہ مومنوں کو نقصان اور تکلیف پہنچانے کے لیے ہے۔ (2) ’’وَ كُفْرًا ‘‘ یعنی مساجد کی بنیاد تو اللہ اور رسول پر ایمان اور اکیلے اللہ کو پکارنے کے لیے ہوتی ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿ وَ اَنَّ الْمَسٰجِدَ لِلّٰهِ فَلَا تَدْعُوْا مَعَ اللّٰهِ اَحَدًا ﴾ [ الجن : ۱۸ ] مگر اس کی بنیاد اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے خلاف دلوں میں چھپا ہوا کفر و شرک اور اس کی اشاعت ہے۔ (3) ’’وَ تَفْرِيْقًۢا بَيْنَ الْمُؤْمِنِيْنَ ‘‘ مسجد قبا کی موجودگی میں اس کے ساتھ ہی مسجد بنانے کا واضح مطلب مسلمانوں کی وحدت کو پارہ پارہ کرنا تھا کہ وہ ایک جگہ نماز نہ پڑھیں، کیونکہ مسلمانوں کی اسلام کی وجہ سے باہمی محبت اور اتفاق و اتحاد سے منافقین کو شدید حسد تھا۔ (4) ’’وَ اِرْصَادًا لِّمَنْ حَارَبَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ ‘‘ اس سے پہلے جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے رہے اور ان سے برسر جنگ رہے، خصوصاً منافقین اور وہ لوگ جو مدینہ سے بھاگ گئے تھے اور دشمنوں کی پناہ میں رہ کر اسلام کے خلاف سازشیں کر رہے تھے ان کے لیے اور ان کے بھیجے ہوئے آدمیوں کے لیے مسجد کے پردے میں چھپاؤ کی جگہ مہیا کرنا۔ مؤرخین نے خصوصاً یہاں ابوعامر راہب (جس کا نام مسلمانوں نے ابوعامر فاسق رکھا ہوا تھا) کا ذکر کیا ہے، جو مشہور صحابی حنظلہ غسیل الملائکہ کا والد تھا اور عیسائی ہو کر ہرقل کے پاس مسلمانوں کے خلاف کمک حاصل کرنے کے لیے گیا تھا، اس کی تجویز پر مسلمانوں سے جنگ کے لیے آنے والوں کے لیے بطور گھات اور کمین گاہ یہ مسجد بنائی گئی تھی۔ منافقین نے مسلمانوں کے دلوں سے شک دور کرنے کے لیے مسجد بنانے کا بہانہ یہ بنایا کہ ہم نے بیماروں اور کمزوروں کی سہولت کے لیے یہ مسجد بنائی ہے، تاکہ وہ سردی اور بارش میں سہولت سے یہاں نماز پڑھ سکیں اور ساتھ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ سے درخواست کی کہ آپ وہاں چل کر نماز پڑھیں، تاکہ ہمیں برکت حاصل ہو۔ خواہش ان کی یہ تھی کہ آپ کے نماز پڑھنے سے ہماری مسجد تسلیم ہو جائے اور ہم اپنی سرگرمیاں جاری رکھ سکیں۔ آپ اس وقت تبوک کے لیے روانہ ہو رہے تھے، اس لیے آپ نے فرمایا کہ اللہ نے چاہا تو واپسی پر میں تمھاری مسجد میں آ کر نماز پڑھوں گا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم تبوک سے واپسی پر مدینہ کے بالکل قریب پہنچ گئے تو جبریل علیہ السلام یہ آیات لے کر نازل ہوئے جن میں اس مسجد ضرار کا پول کھولا گیا اور یہ بھی بتایا گیا کہ یہ لوگ یقیناً قسمیں کھائیں گے کہ ہمارا ارادہ اس مسجد بنانے سے بھلائی کے سوا کچھ نہ تھا، جب کہ اللہ تعالیٰ کی شہادت یہ ہے کہ بلاشک و شبہ یہ لوگ یقیناً جھوٹے ہیں۔