وَإِذَا أُنزِلَتْ سُورَةٌ أَنْ آمِنُوا بِاللَّهِ وَجَاهِدُوا مَعَ رَسُولِهِ اسْتَأْذَنَكَ أُولُو الطَّوْلِ مِنْهُمْ وَقَالُوا ذَرْنَا نَكُن مَّعَ الْقَاعِدِينَ
اور جب کوئی سورت اتاری جاتی ہے کہ اللہ پر ایمان لاؤ اور اس کے رسول کے ساتھ مل کر جہاد کرو تو ان میں سے دولت والے تجھ سے اجازت مانگتے ہیں اور کہتے ہیں ہمیں چھوڑ دے کہ ہم بیٹھ رہنے والوں کے ساتھ ہوجائیں۔
وَ اِذَاۤ اُنْزِلَتْ سُوْرَةٌ....: ’’سُوْرَةٌ‘‘ آیات کا ایک حصہ، ٹکڑا۔ ’’الطَّوْلِ‘‘کا معنی’’اَلْفَضْلُ وَالْقُدْرَةُ وَالْغِنَي وَالسَّعَةُ ‘‘ ہے۔ (قاموس) یعنی وسعت و طاقت اور مال و دولت۔ ’’الْخَوَالِفِ ‘‘ یہ ’’خَالِفَةٌ‘‘ کی جمع ہے ’’پیچھے رہنے والی عورتیں۔‘‘ ’’فَاعِلَةٌ‘‘ کی جمع ’’فَوَاعِلُ‘‘ آتی ہے، جیسے ’’قَاطِعَةٌ ‘‘ کی جمع ’’قَوَاطِعُ‘‘ اور ’’ضَارِبَةٌ ‘‘ کی جمع ’’ضَوَارِبُ‘‘ اور ’’قَافِلَةٌ‘‘ کی جمع ’’قَوَافِلُ‘‘ یعنی جہاد کے حکم والی آیات کا کوئی حصہ اترنے پر وہ لوگ عذر کریں جن کے پاس کچھ نہیں اور جو ضروریات جہاد حاصل نہ ہو سکنے کی وجہ سے ساتھ نہیں جا سکتے تو بات سمجھ میں آتی ہے، مگر ان منافقین میں سے وسعت و طاقت والے بھی جہاد میں نہ جانے اور پیچھے رہنے کی اجازت مانگتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے اسباب بیان فرمائے کہ بزدلی کی وجہ سے ان میں ایسی کمینگی پیدا ہو چکی ہے کہ انھیں عورتوں کے ساتھ پیچھے رہ جانے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتی، بلکہ وہ اس پر خوش ہیں اور ان کے اعمال بد کی وجہ سے ان کے دلوں پر مہر لگا دی گئی ہے جس کی وجہ سے وہ جہاد کی برکات کو اور بزدلی اور ترک جہاد کی نحوست اور نقصانات کو نہیں سمجھتے۔ نہ ان پر اللہ اور اس کے رسول کی بات کا اثر ہوتا ہے اور نہ کسی سمجھانے والے کی نصیحت کا۔