وَمِنْهُم مَّنْ عَاهَدَ اللَّهَ لَئِنْ آتَانَا مِن فَضْلِهِ لَنَصَّدَّقَنَّ وَلَنَكُونَنَّ مِنَ الصَّالِحِينَ
اور ان میں سے بعض وہ ہیں جنھوں نے اللہ سے عہد کیا کہ یقیناً اگر اس نے ہمیں اپنے فضل سے کچھ عطا فرمایا تو ہم ضرور ہی صدقہ کریں گے اور ضرور ہی نیک لوگوں سے ہوجائیں گے۔
1۔ وَ مِنْهُمْ مَّنْ عٰهَدَ اللّٰهَ....: پہلے یہ لوگ فاقوں مرتے تھے اور ان کے شہر مدینہ جس کا نام ان دنوں یثرب تھا، اس کی بھی کوئی حیثیت نہ تھی، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کے بعد ان کا شہر پورے عرب کا مرکز بن گیا اور ان کی تجارت کا دائرہ بھی وسیع ہو گیا اور جنگوں کی وجہ سے بہت سا مال غنیمت بھی ان کے ہاتھ آیا، جس سے یہ لوگ مال دار ہو گئے۔ آیت میں اسی طرف اشارہ ہے کہ یہ منافقین اتنے احسان فراموش ہیں کہ اللہ اور رسول جن کی بدولت انھیں یہ خوش حالی نصیب ہوئی، انھی کے خلاف بگڑ کر یہ اپنے دلوں کا فساد ظاہر کر رہے ہیں اور انھوں نے اللہ تعالیٰ سے عہد تو یہ کیا تھا کہ اگر اس نے ہمیں اپنا فضل عطا کیا تو ہم صدقہ بھی ضرور کریں گے اور نیک بھی ہو جائیں گے، لیکن اب اللہ تعالیٰ کا فضل ہوا اور اس نے مال و دولت سے نوازا تو انھوں نے اللہ تعالیٰ کا عطا کر دہ مال اسلام کی سربلندی کے لیے خرچ کرنے کے بجائے بخل کرکے اللہ اور اس کے رسول سے منہ ہی موڑ لیا، جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے قیامت تک کے لیے ان کے دلوں میں نفاق رکھ دیا۔ 2۔ بعض مفسرین نے ان آیات کا سبب نزول ثعلبہ بن حاطب کو قرار دیا ہے کہ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مال کے لیے دعا کروائی اور صدقہ کرنے کا وعدہ کیا، جب مال بہت بڑھا تو نماز با جماعت چھوڑنے کے بعد جمعہ بھی چھوڑ دیا اور زکوٰۃ لینے والا اس کے پاس گیا تو کہنے لگا، یہ تو جزیہ ہی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’افسوس ثعلبہ پر!‘‘ یہ سن کر وہ زکوٰۃ لے کر آیا، مگر آپ نے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ آپ کے بعد ابوبکر، پھر عمر، پھر عثمان رضی اللہ عنہم نے بھی قبول کرنے سے انکار کیا، اسی حالت میں وہ عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد میں فوت ہو گیا۔ مگر اہل علم نے اس روایت کا شدید رد کیا ہے اور واضح کیا ہے کہ اس کی کوئی صحیح سند نہیں۔ ابن حزم رحمہ اللہ نے فرمایا، یہ قصہ باطل ہے، کیونکہ ثعلبہ رضی اللہ عنہ بدری صحابی ہیں۔