قُلْ هَلْ تَرَبَّصُونَ بِنَا إِلَّا إِحْدَى الْحُسْنَيَيْنِ ۖ وَنَحْنُ نَتَرَبَّصُ بِكُمْ أَن يُصِيبَكُمُ اللَّهُ بِعَذَابٍ مِّنْ عِندِهِ أَوْ بِأَيْدِينَا ۖ فَتَرَبَّصُوا إِنَّا مَعَكُم مُّتَرَبِّصُونَ
کہہ دے تم ہمارے بارے میں دو بہترین چیزوں میں سے ایک کے سوا کس کا انتظار کرتے ہو اور ہم تمھارے بارے میں انتظار کر رہے ہیں کہ اللہ تمھیں اپنے پاس سے کوئی عذاب پہنچائے، یا ہمارے ہاتھوں سے۔ سو انتظار کرو، بے شک ہم (بھی) تمھارے ساتھ منتظر ہیں۔
قُلْ هَلْ تَرَبَّصُوْنَ بِنَاۤ اِلَّاۤ اِحْدَى الْحُسْنَيَيْنِ .....:’’اِحْدَى‘‘ کا معنی ایک اور ’’الْحُسْنَيَيْنِ ‘‘ ’’اَلْحُسْنٰي‘‘ کی تثنیہ ہے، جو ’’ اَلْاَحْسَنُ ‘‘ (اسم تفضیل) کی مؤنث ہے، یعنی سب سے اچھی دو چیزوں میں سے ایک۔ مسلمانوں کی مصیبت پر منافقین کی خوشی کا یہ دوسرا جواب ہے کہ ہم ہر حال میں سب لوگوں سے اچھے ہیں، دنیا میں یا تو ہمیں فتح اور غنیمت حاصل ہو گی جو بہترین چیز ہے، یا پھر ہم اللہ کی راہ میں شہید ہوں گے، تو یہ اس سے بھی بڑھ کر ہے اور ہماری عین تمنا ہے کہ ہم جنت کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اللہ تعالیٰ نے اس شخص کے لیے ضمانت دی ہے جس نے اس کے راستے میں جہاد کیا۔ اسے اس کے راستے میں جہاد اور اس کی باتوں کو سچا یقین کرنے کے سوا کسی اور چیز نے نہیں نکالا کہ وہ اسے جنت میں داخل کرے گا، یا اسے اس کے گھر جس سے نکل کر گیا ہے، اجر یا غنیمت دے کر واپس لائے گا۔‘‘ [ بخاری، فرض الخمس، باب قول النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم : أحلت لکم الغنائم : ۳۱۲۳، عن أبی ھریرۃ رضی اللّٰہ عنہ] اس کے برعکس منافقین ہیں کہ دنیا میں مسلمانوں کے ہاتھوں یا اللہ کی طرف سے انھیں ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑے گا اور آخرت میں اللہ کی طرف سے جہنم کے درک اسفل میں دائمی عذاب میں مبتلا ہوں گے، پس ہم اور تم ایک دوسرے کے متعلق دو حالتوں میں سے ایک کے منتظر ہیں۔