إِن تُصِبْكَ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ ۖ وَإِن تُصِبْكَ مُصِيبَةٌ يَقُولُوا قَدْ أَخَذْنَا أَمْرَنَا مِن قَبْلُ وَيَتَوَلَّوا وَّهُمْ فَرِحُونَ
اگر تجھے کوئی بھلائی پہنچے تو انھیں بری لگتی ہے اور اگر تجھے کوئی مصیبت پہنچے تو کہتے ہیں ہم نے تو پہلے ہی اپنا بچاؤ کرلیا تھا اور اس حال میں پھرتے ہیں کہ وہ بہت خوش ہوتے ہیں۔
اِنْ تُصِبْكَ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ....: یہاں ’’حَسَنَةٌ ‘‘ سے مراد کامیابی، فتح، غنیمت اور سلامتی ہے اور ’’مُصِيْبَةٌ ‘‘ سے مراد فتح حاصل کرنے میں وقتی ناکامی یا مسلمانوں کا زخمی اور شہید ہونا ہے۔ یہ بھی ان کے خبث باطن اور مکر و فریب کی ایک دلیل ہے کہ انھیں مسلمانوں کو کوئی فائدہ حاصل ہونا ناگوار ہوتا ہے اور اگر وہ کسی مصیبت میں مبتلا ہوں تو خوش ہوتے ہیں اور انھیں اپنی ہوش مندی اور سیاست دانی کا پروپیگنڈا کرنے کا موقع مل جاتا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ ہم نے تو پہلے ہی بچاؤ کر لیا تھا، جیسے جنگ احد کے بعد عبد اللہ بن ابی منافق نے کہا تھا کہ ہم تو اسی وجہ سے پہلے پلٹ آئے تھے کہ ہمیں معلوم تھا کہ مسلمانوں کو شکست ہو گی اور وہ مارے جائیں گے۔ ایسے ہی وہ منافق جو غزوۂ تبوک کے موقع پر مدینہ میں رہ گئے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کے متعلق مشہور کرتے رہے کہ یہ لوگ رومیوں سے بچ کر نہیں آ سکیں گے، لیکن جب انھیں اطلاع ملی کہ مسلمان صحیح و سالم فتح حاصل کرکے واپس آ رہے ہیں تو انھیں انتہائی غم ہوا۔ (ابن کثیر) ان کی اس بدخصلت کے مزید تذکرے کے لیے دیکھیے سورۂ آل عمران (۱۵۶) اور نساء (۷۲)۔