الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَتْلُونَهُ حَقَّ تِلَاوَتِهِ أُولَٰئِكَ يُؤْمِنُونَ بِهِ ۗ وَمَن يَكْفُرْ بِهِ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ
وہ لوگ جنھیں ہم نے کتاب دی ہے، اسے پڑھتے ہیں جیسے اسے پڑھنے کا حق ہے، یہ لوگ اس پر ایمان رکھتے ہیں اور جو کوئی اس کے ساتھ کفر کرے تو وہی لوگ خسارہ اٹھانے والے ہیں۔
اہل کتاب کے اعمالِ بد کا ذکر کرنے کے بعد اب ان میں سے نیک اور اللہ سے ڈرنے والے لوگوں کا ذکر فرمایا گیا ہے کہ وہ کتاب کو اس طرح پڑھتے ہیں جس طرح اسے پڑھنے کا حق ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ قرآن پر ایمان لاتے ہیں ۔ اس کی ہم معنی آیات دیکھیے سورۃ القصص (۵۲ تا ۵۴) میں ۔ مراد اس سے عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی ہیں ۔ معلوم ہوا کہ حقِ تلاوت یہ ہے کہ اس میں تحریف نہ کی جائے، اس کے احکام پر عمل کیا جائے۔ قرآن کی تلاوت کا حق بھی یہی ہے۔ بعض لوگ حق سے مراد صرف حروف کو ان کے مخارج سے ادا کرنا لیتے ہیں ، مگر یہ کافی نہیں ۔