لَوْ خَرَجُوا فِيكُم مَّا زَادُوكُمْ إِلَّا خَبَالًا وَلَأَوْضَعُوا خِلَالَكُمْ يَبْغُونَكُمُ الْفِتْنَةَ وَفِيكُمْ سَمَّاعُونَ لَهُمْ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِالظَّالِمِينَ
اگر وہ تم میں نکلتے تو خرابی کے سوا تم میں کسی چیز کا اضافہ نہ کرتے اور ضرور تمھارے درمیان (گھوڑے) دوڑاتے، اس حال میں کہ تم میں فتنہ تلاش کرتے، اور تم میں کچھ ان کی باتیں کان لگا کر سننے والے ہیں اور اللہ ان ظالموں کو خوب جاننے والا ہے۔
1۔ لَوْ خَرَجُوْا فِيْكُمْ مَّا زَادُوْكُمْ اِلَّا خَبَالًا....: اس میں مسلمانوں کو تسلی دی ہے کہ ان کا نہ نکلنا ہی تمھارے لیے بہتر تھا، کیونکہ یہ لوگ ساتھ جا کر مزید خرابی ہی پیدا کرتے اور تمھارے درمیان فساد ڈالنے کی نیت سے ہر طرح کی دوڑ دھوپ کرتے، کبھی کسی کی چغلی کھاتے، کبھی ایک مسلمان کو دوسرے سے لڑانے کی کوشش کرتے اور کبھی مسلمانوں کے حوصلے پست کرنے کی تدبیریں سوچتے، انھی وجوہ کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے انھیں نکلنے کی توفیق نہیں دی۔ 2۔ وَ فِيْكُمْ سَمّٰعُوْنَ لَهُمْ....: تبوک کے لیے نکل آنے والوں میں بعض لوگ منافقین کے بارے میں نرم گوشہ رکھتے تھے، اللہ تعالیٰ نے ان سے دوسرے تمام مجاہدوں کو خبردار کیا ہے کہ تم میں سے بعض سادہ دل ان کی باتیں بڑے غور سے سنتے ہیں، حالانکہ ایسے بددلی پھیلانے والوں کی بات بھی نہیں سننی چاہیے۔ ایک مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تم میں ایسے لوگ بھی ہیں جو ان کے لیے جاسوسی کرتے ہیں، یعنی تمھاری کمزوریاں انھیں پہنچاتے ہیں۔ ’’ بِالظّٰلِمِيْنَ ‘‘ کے الف لام برائے عہد کی وجہ سے ’’ان ظالموں کو‘‘ ترجمہ کیا گیا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ ان ظالموں کو خوب جاننے والا ہے جو اس کام کا ارتکاب کرکے اپنے آپ پر بھی ظلم کر رہے ہیں اور دوسروں میں افتراق اور شبہات پیدا کرکے ان پر بھی ظلم کرتے ہیں۔