وَلَوْ أَرَادُوا الْخُرُوجَ لَأَعَدُّوا لَهُ عُدَّةً وَلَٰكِن كَرِهَ اللَّهُ انبِعَاثَهُمْ فَثَبَّطَهُمْ وَقِيلَ اقْعُدُوا مَعَ الْقَاعِدِينَ
اور اگر وہ نکلنے کا ارادہ رکھتے تو اس کے لیے کچھ سامان ضرور تیار کرتے اور لیکن اللہ نے ان کا اٹھنا ناپسند کیا تو انھیں روک دیا اور کہہ دیا گیا کہ بیٹھنے والوں کے ساتھ بیٹھے رہو۔
1۔ وَ لَوْ اَرَادُوا الْخُرُوْجَ لَاَعَدُّوْا لَهٗ عُدَّةً....: اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے جنگ تبوک کے موقع پر منافقین اور ان تمام جھوٹے دعوے داروں کی حقیقت کھول دی جو کہتے ہیں کہ ہم بھی مجاہد ہیں اور ہر وقت جہاد کے لیے نکلنے کو تیار ہیں، مگر ساٹھ ستر برس کی عمر تک پہنچ جانے کے باوجود کبھی نہ مجاہدین کے ساتھ نکلے، نہ نشانہ بازی سیکھی، نہ تیراکی، نہ فنون حرب میں سے کوئی فن سیکھا، نہ کسی معرکے میں شریک ہوئے، نہ جہاد کے لیے جسم تیار کیا، نہ جہاد کے لیے درکار سامان جمع کیا۔ بس ڈگریوں کے حصول، ملازمت، کفار کی غلامی، کاروبار اور حلال و حرام ہر طرح دنیا کمانے میں لگے رہے، یا پیری فقیری اور ھُو حق میں لگے رہے۔ اولاد کو بھی اسی پر لگائے رکھا اور جب جہاد کا تذکرہ ہوا تو اللہ کے راستے میں نکلنے والوں پر دو چار طنزیہ فقرے کس کر اپنے آپ کو نفس سے جہاد کرنے والا مجاہد اکبر اور جان قربان کرنے والوں کو جہاد اصغر میں مصروف قرار دے دیا (جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمے صاف جھوٹ ہے)۔ ان کے جہاد اکبر اور نفس سے جہاد کی حقیقت ان کی جہاد کی تیاری ہی سے ظاہر ہے، اللہ تعالیٰ کو بھی ان کے نفاق اور بدعملی کی وجہ سے مخلص مجاہدین کے ساتھ ان کا نکلنا پسند نہیں ہے، تبھی اس نے انھیں نکلنے کی توفیق ہی سے محروم کر دیا۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص مر گیا اور اس نے نہ جنگ کی اور نہ اپنے دل کے ساتھ کبھی جنگ کرنے کی بات چیت کی تو وہ نفاق کی ایک شاخ پر مرے گا۔‘‘ [ مسلم، الإمارۃ، باب ذم من مات ولم یغز....: ۱۹۱۰ ] 2۔ فَثَبَّطَهُمْ: ’’ ثَبَّطَهُ تَثْبِيْطًا ‘‘ کسی آدمی کے کام میں رکاوٹ ڈال دینا، یا کسی طریقے سے اسے اس سے باز رکھنا۔ 3۔ وَ قِيْلَ اقْعُدُوْا مَعَ الْقٰعِدِيْنَ: اس سے ان کی مذمت مقصود ہے کہ انھوں نے اپنے نفاق، بزدلی اور بے ہمتی کی وجہ سے عورتوں، بچوں، بیماروں اور جنگ میں شرکت سے لاچار بوڑھوں کے ساتھ پیچھے بیٹھ رہنا پسند کر لیا۔