إِلَّا تَنصُرُوهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللَّهُ إِذْ أَخْرَجَهُ الَّذِينَ كَفَرُوا ثَانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُمَا فِي الْغَارِ إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا ۖ فَأَنزَلَ اللَّهُ سَكِينَتَهُ عَلَيْهِ وَأَيَّدَهُ بِجُنُودٍ لَّمْ تَرَوْهَا وَجَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِينَ كَفَرُوا السُّفْلَىٰ ۗ وَكَلِمَةُ اللَّهِ هِيَ الْعُلْيَا ۗ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ
اگر تم اس کی مدد نہ کرو تو بلاشبہ اللہ نے اس کی مدد کی، جب اسے ان لوگوں نے نکال دیا جنھوں نے کفر کیا، جب کہ وہ دو میں دوسرا تھا، جب وہ دونوں غار میں تھے، جب وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا غم نہ کر، بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ تو اللہ نے اپنی سکینت اس پر اتار دی اور اسے ان لشکروں کے ساتھ قوت دی جو تم نے نہیں دیکھے اور ان لوگوں کی بات نیچی کردی جنھوں نے کفر کیا اور اللہ کی بات ہی سب سے اونچی ہے اور اللہ سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔
1۔ اِلَّا تَنْصُرُوْهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللّٰهُ....: یعنی اگر تم تبوک کے لیے نہیں نکلو گے اور اس کی مدد نہیں کرو گے تو وہ خود اکیلا ہی اس کی مدد کے لیے کافی ہے، دیکھ لو جب مکہ کے مشرکوں نے اسے قتل کرنے کا فیصلہ کرکے اسے وطن سے نکلنے پر مجبور کر دیا تھا اور اس کے ساتھ صرف ایک ساتھی تھا، اس وقت بھی اللہ تعالیٰ نے تم میں سے کسی کی مدد کے بغیر خود اس کی مدد کی تھی۔ اب بھی اسے تم میں سے کسی کی ضرورت نہیں، ہاں تمھاری بہتری اسی میں ہے کہ دشمنانِ اسلام کے مقابلے کے لیے نکلو، یہ تمھارے لیے بہتر ہے۔ 2۔ ثَانِيَ اثْنَيْنِ: ’’دو میں سے دوسرا‘‘ سے مراد پہلا ہے۔ ’’ثَانِيَ اثْنَيْنِ ‘‘ میں پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرے ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے۔ اسی طرح ’’ ثَالِثُ ثَلَاثَةٍ‘‘ یا ’’رَابِعُ اَرْبَعَةٍ‘‘ میں ثالث یا رابع وہ ہو گا جو پہلا ہو گا، باقی بعد میں ہوں گے، ہاں ’’ رَابِعُ ثَلَاثَةٍ‘‘ یا ’’خَامِسُ اَرْبَعَةٍ ‘‘ میں رابع یا خامس وہ ہو گا جو بعد میں ملے گا اور اس کا نمبر چوتھا یا پانچواں ہو گا۔ [ الوسیط للطنطاوی ] تمام مفسرین کا اتفاق ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دوسرے ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے اور اکثر دینی منصبوں اور عہدوں پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد دوسرے نمبر پر وہی فائز رہے۔ سب سے پہلے مسلمان ہوئے اور لوگوں کو اسلام کی دعوت دی، جس پر بہت سے جلیل القدر صحابہ رضی اللہ عنہم مسلمان ہوئے، جنگوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے الگ نہیں ہوئے۔ مرض الموت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نہایت تاکیدی حکم کے ساتھ اور کسی بھی دوسرے کی امامت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے انکار کے بعد آپ کے قائم مقام کی حیثیت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مصلے پر کھڑے ہوئے، پھر آپ کے پہلو میں دفن ہوئے، اس طرح اول و آخر صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو دوسرا ہونے کا شرف حاصل رہا۔ 3۔ اِذْ يَقُوْلُ لِصَاحِبِهٖ: یہاں صاحب (ساتھی) ہونے کا شرف بھی ابوبکر رضی اللہ عنہ کو حاصل ہے۔ صاحب کا لفظ اصل میں اکثر اوقات ساتھ رہنے والے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اسی لیے بیوی کو ’’ صَاحِبَةٌ ‘‘ کہتے ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿اَنّٰى يَكُوْنُ لَهٗ وَلَدٌ وَّ لَمْ تَكُنْ لَّهٗ صَاحِبَةٌ﴾ [ الأنعام : ۱۰۱ ] ’’اس کی اولاد کیسے ہو گی جبکہ اس کی کوئی بیوی ہی نہیں۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ جو شخص ابوبکر رضی اللہ عنہ کے صاحبِ رسول یعنی آپ کے خاص ساتھی اور یار غار ہونے کا منکر ہے وہ درحقیقت قرآن کا منکر ہے۔ شاہ عبد القادر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’رفیق غار ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے، صرف یہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، دوسرے اصحاب بعض پہلے نکل گئے تھے بعض بعد میں آئے۔‘‘ ( موضح) 4۔ اِذْ هُمَا فِي الْغَارِ: اس غار سے مراد ثور پہاڑ کی چوٹی کے قریب واقع غار ہے، جو مکہ سے جنوب کی طرف تقریباً پانچ میل کے فاصلے پر ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یقین تھا کہ آپ کا تعاقب کیا جائے گا، اس لیے آپ نے مدینے کا راستہ جو شمال کی طرف ہے، چھوڑ کر جنوب کی سمت اختیار کی اور غار ثور میں چھپ گئے، تاکہ تلاش کرنے والے آپ کو آسانی سے پا نہ سکیں۔ تفسیر ماجدی میں ہے: ’’اس غار کا دہانہ اب تک اتنا تنگ ہے کہ اندر صرف لیٹ کر ہی جانا ممکن ہے۔‘‘ شیخ رشید رضا مصری نے تفسیر المنار میں ایک مصری امیر الحج ابراہیم رفعت پاشا (سنِ حج 1318ھ) کے حوالے سے غار کی پیمائش وغیرہ دی ہے اور اس کی تنگی کا ذکر صراحت کے ساتھ کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں تین دن چھپے رہے، پھر مدینہ کی طرف روانہ ہو گئے، آپ کی گرفتاری پر انعام مقرر ہو چکا تھا، اس لیے دشمنوں نے آپ کی تلاش کے لیے ہر ممکن کوشش کی، حتیٰ کہ بعض قدموں کے نشان پہچاننے والے غار کے سرے پر پہنچ گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے قدم نظر آنے لگے، ابوبکر رضی اللہ عنہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فکر لاحق ہوئی اور وہ سخت غم زدہ ہو گئے۔ 5۔ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا: انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا، جب کہ میں اس غار میں تھا : ’’اگر ان میں سے کوئی شخص اپنے قدموں کے نیچے نظر ڈالے تو ہمیں ضرور دیکھ لے گا۔‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اے ابوبکر! ان دو کے متعلق تمھارا کیا خیال ہے جن کا تیسرا اللہ تعالیٰ ہے۔‘‘ [ بخاری، فضائل أصحاب النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، باب مناقب المہاجرین وفضلھم....: ۳۶۵۳ ] ’’اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا ‘‘ (بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے) اس ’’ساتھ‘‘سے مراد خاص ساتھ ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کی خاص مدد اور نصرت، ورنہ عام معیت (ساتھ) تو ہر شخص کو حاصل ہے، فرمایا : ﴿وَ هُوَ مَعَكُمْ اَيْنَ مَا كُنْتُمْ ﴾ [ الحدید : ۴ ] ’’اور وہ تمھارے ساتھ ہے تم جہاں کہیں بھی ہو۔‘‘ اس میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کی فضیلت ظاہر ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کے سمندر کے کنارے پہنچنے پر اور فرعون کی فوج کو دیکھنے پر ان کی قوم نے اپنے پکڑے جانے کا خطرہ پیش کیا تو موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا : ﴿ كَلَّا اِنَّ مَعِيَ رَبِّيْ﴾ [ الشعراء : ۶۲ ] ’’ہر گز نہیں، بے شک میرے ساتھ میرا رب ہے۔‘‘ چنانچہ انھوں نے ’’مَعِيَ ‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کی معیت میں اپنے ساتھ کسی کو شریک نہیں کیا، جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ﴿ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا﴾ ’’بے شک اللہ ہم دونوں کے ساتھ ہے۔‘‘ 6۔ فَاَنْزَلَ اللّٰهُ سَكِيْنَتَهٗ عَلَيْهِ: یعنی اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی سکینت نازل فرمائی۔ بعض مفسرین نے مراد ابوبکر رضی اللہ عنہ لیے ہیں، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر تو اللہ تعالیٰ کی سکینت پہلے ہی نازل تھی، مگر اس سے ’’عَلَيْهِ‘‘ کی ضمیر کی بعد میں آنے والی ضمیر ’’وَ اَيَّدَهٗ بِجُنُوْدٍ لَّمْ تَرَوْهَا ‘‘ کے ساتھ مطابقت نہیں رہتی اور کچھ بعید نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول پر پہلی سکینت کے علاوہ خاص سکینت نازل فرمائی ہو۔ جس سے آپ کے اطمینان میں مزید اضافہ ہوا ہو، اس لیے یہی راجح معلوم ہوتا ہے کہ ’’عَلَيْهِ ‘‘ سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ 7۔ وَ اَيَّدَهٗ بِجُنُوْدٍ لَّمْ تَرَوْهَا: یعنی فرشتوں کے لشکروں کے ساتھ جنھیں تم نے نہیں دیکھا کہ انھوں نے تعاقب کرنے والوں کی نگاہیں آپ پر پڑنے ہی نہیں دیں۔ جیسا کہ حنین میں مدد فرمائی (دیکھیے توبہ : ۲۶) اور بدر میں (دیکھیے انفال : ۹۔ آل عمران : ۱۲۴، ۱۲۵)۔ 8۔ بعض لوگ بیان کرتے ہیں کہ عنکبوت (مکڑی) نے جالا بن دیا تھا اور کبوتری نے گھونسلا بنا کر انڈے دے دیے تھے، مگر یہ بات ثابت نہیں، الشیخ علامہ ناصر الدین الالبانی رحمہ اللہ نے سلسلہ ضعیفہ میں عنکبوت کے قصے کو ضعیف قرار دیا ہے۔ 9۔ وَ جَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِيْنَ كَفَرُوا السُّفْلٰى....: یعنی ہجرت، بدر، احد، خندق، حدیبیہ، فتح مکہ، حنین، تبوک، ہر جگہ کفر کو نیچا دکھایا۔ ’’وَ كَلِمَةُ اللّٰهِ هِيَ الْعُلْيَا ‘‘ اور اللہ تعالیٰ کا بول ہی سب سے بالا اور اس کی بات ہی سب سے اونچی ہے، اگر کہیں مسلمان نیچے رہے تو اللہ کی بات کے نیچا ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے ایمان و عمل کی کسی کمی کی وجہ سے، فرمایا : ﴿وَ اَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ ﴾ [آل عمران : ۱۳۹ ]’’اور تم ہی غالب ہو، اگر تم مومن ہو۔‘‘ اور دیکھیے سورۂ محمد(۳۵)۔