سورة التوبہ - آیت 31

اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا إِلَٰهًا وَاحِدًا ۖ لَّا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۚ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

انھوں نے اپنے عالموں اور اپنے درویشوں کو اللہ کے سوا رب بنا لیا اور مسیح ابن مریم کو بھی، حالانکہ انھیں اس کے سوا حکم نہیں دیا گیا تھا کہ ایک معبود کی عبادت کریں، کوئی معبود نہیں مگر وہی، وہ اس سے پاک ہے جو وہ شریک بناتے ہیں۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

اِتَّخَذُوْۤا اَحْبَارَهُمْ وَ رُهْبَانَهُمْ....: ’’حَبْرٌ‘‘ حاء کی زبر اور زیر دونوں کے ساتھ آتا ہے اور باء ساکن ہے، وہ عالم جو بہت خوب صورت اور پختہ بات کہے۔ یہ ’’تَحْبِيْرٌ‘‘ سے ہے جس کا معنی مزین کرنا ہے۔ رہبان، راہب کی جمع ہے، ڈرنے والا، یعنی جو اللہ کے خوف سے دنیا ترک کر کے لوگوں سے الگ کسی کٹیا میں جا ڈیرہ لگائے۔ ان کے مسیح ابن مریم علیھما السلام کو رب بنانے کا ذکر تو اوپر بھی آ چکا ہے، کیونکہ بیٹا باپ کے اختیارات میں اس کا شریک اور جانشین ہوتا ہے، اس لیے مسیح علیہ السلام کو بیٹا ماننے پر ان کو رب بنانے میں کیا کسر رہ گئی۔ رہے ان کے عالم اور درویش تو انھیں رب بنانے والے کچھ لوگ تو وہ تھے جو واقعی کائنات میں ان کا حکم چلنے کا عقیدہ رکھتے تھے، جس طرح آج کل بعض مسلمان پیروں، فقیروں کو سجدہ کرتے، ان سے اولاد، حاجتیں اور مرادیں مانگتے ہیں اور یہ باطل عقیدہ رکھتے ہیں کہ کائنات کو قطب، ابدال اور اوتاد چلارہے ہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ یہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق ان پہلوں ہی کے نقش قدم پر چل رہے ہیں، مگر بعض اہل کتاب نے انھیں ایک اور طریقے سے رب بنا رکھا تھا۔ چنانچہ عدی بن حاتم طائی، جو مسلمان ہو چکے تھے، فرماتے ہیں میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور میری گردن میں سونے کی صلیب تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’یہ بت اپنے آپ سے اتار کر پھینک دو۔‘‘ اور میں نے آپ سے سنا کہ آپ سورۂ براء ت میں یہ آیت پڑھ رہے تھے : ﴿اِتَّخَذُوْۤا اَحْبَارَهُمْ وَ رُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ ﴾ میں نے کہا : ’’احبار و رہبان کو رب تو کوئی نہیں مانتا۔‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’وہ لوگ ان کی عبادت نہیں کیا کرتے تھے، لیکن وہ جب ان کے لیے کوئی چیز حلال کر دیتے اسے حلال سمجھ لیتے اور جب ان پر کوئی چیز حرام کرتے تو اسے حرام سمجھ لیتے۔‘‘ [ ترمذی، التفسیر، باب و من سورۃ التوبۃ : ۳۰۹۵ و حسنہ الألبانی ] گویا یہ ان کا دوسرا شرک تھا کہ انھوں نے حلال و حرام قرار دینے کا اختیار اپنے مشائخ و علماء کو دے دیا، حالانکہ یہ صرف اللہ تعالیٰ کا حق ہے اور ان پر لازم تھا کہ اپنے نبی کے بتائے ہوئے طریقے اور فرامین پر قائم رہتے۔ بالکل یہی طرز عمل ہمارے زمانے کے مقلدین کا ہے کہ ان کے امام کا قول صاف قرآن یا صحیح حدیث کے خلاف آ جائے تب بھی وہ قرآن اور صحیح حدیث ماننے کے بجائے اپنے امام کے حلال کردہ کو حلال اور اس کے حرام کردہ کو حرام کہیں گے، پھر اس پر اصرار کریں گے، مثلاً قرآن مجید کا صاف حکم ہے کہ رضاعت کی مکمل مدت دو سال ہے، مگر کچھ لوگوں نے اسے ماننے کے بجائے اپنے امام کے کہنے پر اسے اڑھائی سال قرار دے لیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحیح اور صریح فرمان : ’’ہر نشہ آور حرام ہے‘‘ کے باوجود کھجور اور انگور کے سوا کسی بھی چیز سے بنی ہوئی نشہ آور چیز کو حلال قرار دے لیا، زنا کو حلالہ کہہ کر حلال کر لیا، اجرت پر لائی عورت سے زنا پر حد معاف کر دی، تیز دھار آلے اور آگ کے سوا جان بوجھ کر کسی بھی طریقے سے قتل کر دینے پر قصاص ختم کر دیا، بادشاہِ وقت سے اللہ تعالیٰ کی کئی حدود بالکل ہی معاف کر دیں، چور کے چوری کے مال پر ملکیت کے خالی دعوے سے، جس پر وہ کوئی دلیل بھی نہ دے، چوری کی حد ختم کر دی، گانے بجانے اور رقص کو مشائخ کے کہنے پر معرفت اور روح کی غذا قرار دے لیا اور بعض مشائخ و علماء نے عوام سے یہ بیعت لینا شروع کر دی کہ ہمارا ہر حکم، خواہ وہ قرآن و حدیث کے موافق ہو یا مخالف، تم مانو گے۔ بتائیے! ان مسلمانوں کے احبار و رہبان کو رب بنانے میں کیا کسر رہ گئی!؟ خلاصہ یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ فرمان بالکل پورا ہوا کہ تم ہو بہو پہلے لوگوں کے نشان قدم پر چل پڑو گے، پھر ہر گروہ کے اپنے پیشوا کی غلط باتوں پر ڈٹ جانے سے مسلمانوں میں ایسا شگاف پڑا جو قرآن و حدیث کی طرف واپس آنے کے بغیر کبھی پر نہیں ہو سکتا۔ ’’اِتَّسَعَ الْخَرْقُ عَلَي الرَّاقِعِ‘‘ کی صورت پیدا ہو گئی ہے کہ شگاف پیوند لگانے والے کی بساط سے بھی زیادہ کھلا ہو گیا۔ پہلے (۷۲) گروہ بنے تھے یہ (۷۳) بن گئے۔ [ فَإِنَّا لِلّٰہِ وَ إِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ ] 2۔ یہودو نصاریٰ کا اپنے احبار و رہبان کو حلال و حرام کا اختیار دینا انھیں رب بنانا تھا، اب جب یہود و نصاریٰ نے احبار و رہبان کے کرتوتوں کو دیکھ کر ان سے بغاوت کر دی تو عوام کی اکثریت کو حلال و حرام کا اختیار دے کر انھیں رب بنا لیا اور اس نئے دین کا نام جمہوریت رکھا، جس میں حلال و حرام کا فیصلہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے بجائے پارلیمنٹ کی اکثریت کرتی ہے، جو صریح شرک ہے۔ افسوس کہ مسلمان اس شرک میں ان کے قدم بہ قدم چل رہے ہیں، بلکہ اسلام سے اس بغاوت پر فخر کرتے اور دن رات اس کی تعریف کرتے ہیں اور یہ کہنے میں کوئی حیا محسوس نہیں کرتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی جمہوریت نافذ کرنے کے لیے آئے تھے۔ ان بے چاروں کو معلوم نہیں کہ جمہوریت صرف ان امور میں مشورے کا نام نہیں جہاں اللہ اور اس کے رسول کا حکم موجود نہ ہو بلکہ یہ ایک الگ دین ہے جس کا رب بھی عوام یا ان کے نمائندے ہیں اور رسول بھی۔ انھی کو حلال و حرام اور جائز و ناجائز قرار دینے کا حق حاصل ہے۔ اس دین میں اللہ تعالیٰ، اس کے رسول یا اس کی کتاب کا کچھ دخل نہیں، ہاں دھوکا دینے کے لیے ان کا نام استعمال ہوتا ہے۔ وَ الْمَسِيْحَ ابْنَ مَرْيَمَ: مسیح ابن مریم علیھما السلام کو دوبارہ لا کر ان کا رب بنانا اس لیے ذکر فرمایا کہ یہودیوں نے عزیر علیہ السلام یا علماء و رہبان کی پرستش اس طرح نہیں کی تھی جس طرح نصاریٰ نے مسیح علیہ السلام کی کی اور نہ وہ اس معنی میں عزیر علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا ماننے کا اقرار کرتے ہیں جن معنوں میں نصاریٰ مسیح علیہ السلام کو بغیر باپ کے پیدا ہونے کی وجہ سے اللہ کا بیٹا قرار دیتے ہیں۔رہے احبار و رہبان تو ان کو یہود ونصاریٰ دونوں نے ایک ہی معنی میں رب بنایا تھا۔ پیچھے اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کا ذکر کرکے ان کی اس دلیل کو بھی بے معنی قرار دیا تھا کہ وہ تو باپ اور ماں دونوں کے بغیر پیدا ہوئے تھے، اگر وہ رب نہیں تو ماں سے پیدا ہونے والا کیسے رب ہو گیا؟ وَ مَاۤ اُمِرُوْۤا اِلَّا لِيَعْبُدُوْۤا اِلٰهًا وَّاحِدًا: یعنی یہ تمام بے ہودگی یہودو نصاریٰ نے تورات میں موجود واضح احکام کے باوجود اختیار کی کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنانا، جو اب بھی تورات کی تحریف کے باوجود مختلف الفاظ کے ساتھ اس میں جا بجا موجود ہیں۔