سورة التوبہ - آیت 24

قُلْ إِن كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ وَإِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَاكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُم مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّىٰ يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ ۗ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

کہہ دے اگر تمھارے باپ اور تمھارے بیٹے اور تمھارے بھائی اور تمھاری بیویاں اور تمھارا خاندان اور وہ اموال جو تم نے کمائے ہیں اور وہ تجارت جس کے مندا پڑنے سے تم ڈرتے ہو اور رہنے کے مکانات، جنھیں تم پسند کرتے ہو، تمھیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ محبوب ہیں تو انتظار کرو، یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لے آئے اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَآؤُكُمْ وَ اَبْنَآؤُكُمْ....: یہ اور اس سے پہلی آیت دونوں مسلمانوں کے کسی خاص گروہ یا واقعہ سے متعلق نہیں بلکہ عام اور ہر زمانے کے لیے ہیں، ان میں تمام مسلمانوں کو یہ تعلیم دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت انھیں دنیا کی ہر چیز سے زیادہ ہونی چاہیے، یہ تمام چیزیں جو اللہ تعالیٰ نے شمار فرمائی ہیں ہر انسان کو طبعی طور پر محبوب ہوتی ہیں، فرمایا : ﴿زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوٰتِ مِنَ النِّسَآءِ وَ الْبَنِيْنَ وَ الْقَنَاطِيْرِ الْمُقَنْطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَ الْفِضَّةِ وَ الْخَيْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَ الْاَنْعَامِ وَ الْحَرْثِ ذٰلِكَ مَتَاعُ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَ اللّٰهُ عِنْدَهٗ حُسْنُ الْمَاٰبِ ﴾ [ آل عمران : ۱۴ ] ’’لوگوں کے لیے نفسانی خواہشوں کی محبت مزین کی گئی ہے جو عورتیں اور بیٹے اور سونے اور چاندی کے جمع کیے ہوئے خزانے اور نشان لگائے ہوئے گھوڑے اور مویشی اور کھیتی ہیں، یہ دنیا کی زندگی کا سامان ہے اور اللہ ہی ہے جس کے پاس اچھا ٹھکانا ہے۔‘‘ ان چیزوں سے محبت کوئی گناہ بھی نہیں، بلکہ ان سے محبت اور ان کے حقوق کی ادائیگی آدمی کی ذمہ داری ہے، اللہ تعالیٰ کی طرف سے تقاضا صرف یہ ہے کہ ان میں سے کسی چیز کی محبت اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اور اس کے راستے میں جہاد سے بڑھ کر نہیں ہونی چاہیے۔ پیمانہ اس کا یہ ہے کہ اگر کبھی ایسا ہو کہ ایک طرف اللہ تعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہو اور اسلام کی خاطر جہاد کرتے ہوئے سب کچھ قربان کر دینے کی ضرورت ہو اور دوسری طرف ماں باپ اور خویش و اقارب کی محبت ہو اور دنیا کے دوسرے تعلقات یا مفادات و خطرات اس کی راہ میں رکاوٹ بن رہے ہوں تو مسلمان کا فرض ہے کہ وہ ہر شخص اور ہر مصلحت سے بے پروا ہو کر اللہ تعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی پیروی کرے اور کوئی دنیوی مفاد یا خطرہ ایسا نہیں ہونا چاہیے جو اسے اللہ کا حکم ماننے اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے باز رکھ سکے، ورنہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی بھی وقت عذاب آ سکتا ہے۔ یہی مضمون ہے جس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار واضح فرمایا ہے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’مجھے اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اسے اس کی جان سے بھی زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔‘‘ [ بخاری، الإیمان، باب حب الرسول صلی اللہ علیہ وسلم من الإیمان : ۱۵، عن أنس رضی اللہ عنہ] عبد اللہ بن ہشام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جا رہے تھے اور عمر رضی اللہ عنہ کا ہاتھ آپ کے ہاتھ میں تھا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : ’’آپ مجھے دنیا کی ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں سوائے اپنی جان کے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’نہیں، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! جب تک کہ میں تجھے تیری جان سے بھی زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔‘‘ عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی : ’’اب آپ مجھے میری جان سے بھی زیادہ محبوب ہیں۔‘‘ فرمایا : ’’اب اے عمر ! (تیرے ایمان کا معاملہ درست ہوا)۔‘‘ [ بخاری، الأیمان والنذور، باب کیف کانت یمین النبی صلی اللہ علیہ وسلم : ۶۶۳۲ ] حَتّٰى يَاْتِيَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖ: ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’جب تم ’’ عینہ ‘‘ (حیلے کے ساتھ سود کی ایک قسم) کے ساتھ بیع کرو گے اور بیلوں کی دمیں پکڑ لو گے اور کھیتی باڑی پر راضی ہو جاؤ گے اور جہاد ترک کر دو گے، تو اللہ تعالیٰ تم پر ایسی ذلت مسلط کرے گا جسے ختم نہیں کرے گا، جب تک تم اپنے دین کی طرف لوٹ نہیں آؤ گے۔‘‘ [أبوداؤد، البیوع، باب فی النہی عن العینۃ : ۳۴۶۲، و صححہ الألبانی ] زمخشری رحمہ اللہ نے فرمایا کہ یہ آیت بہت سخت ہے، اس سے سخت آپ کوئی آیت نہیں دیکھیں گے۔ یہ انسان کی دینی کمزوری اور یقین کی کمی کی نشان دہی کرتی ہے۔ اپنے دل میں بہت پرہیز گار اور متقی شخص انصاف سے سوچے کہ کیا واقعی اس میں اتنی دینی پختگی ہے کہ اس آیت میں مذکور تمام چیزوں کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے خلاف ہونے کی بنا پر کسی معاملے میں چھوڑ سکتا ہے، یا کسی کی تھوڑی سی ناراضگی یا دنیا کے معمولی سے مفاد کی بنا پر وہ کش مکش میں پڑ جاتا ہے کہ کسے رکھوں اور کسے چھوڑوں؟ پھر اکثر یہی ہوتا ہے کہ اس کی بیوی، اولاد، دوستوں، معاشرے اور تجارتی مفاد کے تقاضے ہی اللہ کے دین کے تقاضوں پر غالب آتے ہیں۔ (الا ما شاء اللہ)