يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُم بِرَحْمَةٍ مِّنْهُ وَرِضْوَانٍ وَجَنَّاتٍ لَّهُمْ فِيهَا نَعِيمٌ مُّقِيمٌ
ان کا رب انھیں اپنی طرف سے بڑی رحمت اور عظیم رضامندی اور ایسے باغوں کی خوشخبری دیتا ہے جن میں ان کے لیے ہمیشہ رہنے والی نعمت ہے۔
يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِّنْهُ....: ’’بِرَحْمَةٍ ‘‘ اور ’’رِضْوَانٍ ‘‘ پر تنوین تعظیم کی ہے۔ اب اس رحمت اور رضا مندی کا کون اندازہ کر سکتا ہے جسے خود اللہ تعالیٰ خاص اپنی طرف سے اور عظیم قرار دے رہا ہے، اگلی آیت میں دوبارہ اسے اجر عظیم قرار دیا ہے۔ جب مالک خود ان لوگوں سے راضی اور انھیں اپنی رحمت اور جنت کی خوش خبری دے رہا ہے، تو ڈوب مرنا چاہیے ان لوگوں کو جو ان کے خلاف اپنی زبانیں کھولتے ہیں، اگر ان میں ذرہ بھر بھی غیرت اور شرم و حیا ہے۔ ورنہ سیدھی طرح اپنی بد تمیزی اور گستاخی سے توبہ کر کے ان کا وہ مقام تسلیم کرنا چاہیے جو اللہ اور اس کے رسول نے انھیں دیا ہے۔ یاد رہے کہ ایمان، جہاد اور ہجرت کا سلسلہ قیامت تک قائم رہے گا اور وہ سب مجاہدین اس فضیلت میں شامل ہیں جو یہ شرف حاصل کریں گے۔ ابو حیان نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کے تین وصف ایمان، ہجرت اور مال و جان کے ساتھ جہاد ذکر فرمائے، ان کے مقابلے میں تین ہی انعام ذکر فرمائے، ایمان کے مقابلے میں رحمت، کیونکہ وہ صرف ایمان سے حاصل ہوتی ہے اور سب سے عام ہے۔ جان و مال کے ساتھ جہاد کے مقابلے میں رضوان جو کسی سے حسن سلوک کی انتہا ہے اور ہجرت، یعنی وطن چھوڑنے کے بدلے میں جنت جو دائمی اقامت کا گھر ہے۔