أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تُتْرَكُوا وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جَاهَدُوا مِنكُمْ وَلَمْ يَتَّخِذُوا مِن دُونِ اللَّهِ وَلَا رَسُولِهِ وَلَا الْمُؤْمِنِينَ وَلِيجَةً ۚ وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ
یا تم نے گمان کر رکھا ہے کہ تم چھوڑ دیے جاؤ گے، حالانکہ ابھی تک اللہ نے ان لوگوں کو نہیں جانا جنھوں نے تم میں سے جہاد کیا اور نہ اللہ کے اور نہ اس کے رسول کے اور نہ ایمان والوں کے سوا کسی کو راز دار بنایا اور اللہ اس سے پورا باخبر ہے جو تم کرتے ہو۔
1۔ اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تُتْرَكُوْا....: ’’وَلِيْجَةً ‘‘ ’’ وَلَجَ يَلِجُ ‘‘ (وَعَدَ ) سے ہے جس کا معنی داخل ہونا ہے، یعنی دل کے اندر داخل ہو جانے والا، قلبی دوست اور محبوب، جس کے سامنے آدمی اپنے دلی راز بھی رکھ دے۔ مسلمانوں کو حکم ہے کہ کفار کو کسی صورت دلی دوست نہ بناؤ، فرمایا : ﴿لَا تَتَّخِذُوْا بِطَانَةً مِّنْ دُوْنِكُمْ لَا يَاْلُوْنَكُمْ خَبَالًا ﴾ [ آل عمران : ۱۱۸ ] ’’اپنے سوا کسی کو دلی دوست نہ بناؤ، وہ تمھیں کسی طرح نقصان پہنچانے میں کمی نہیں کرتے۔‘‘ احکام جہاد کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں جہاد کی ایک حکمت بیان فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے سے کھرے اور کھوٹے اہل ایمان کو الگ الگ کرنا چاہتا ہے اور ان لوگوں کو خالص کرنا چاہتا ہے جن میں جہاد اور صرف مسلمانوں سے دلی دوستی اور راز داری کا وصف پایا جاتا ہے، کیونکہ یہ چیز لڑائی ہی سے نکھر کر سامنے آتی ہے۔ منافقین بھی بعض اوقات جہاد میں شریک ہو جاتے ہیں، مگر کفار سے دلی دوستی اور راز داری کا تعلق ختم نہیں کرتے، نہ ہی وہ صرف اللہ کی رضا کے لیے لڑتے ہیں، نیز دیکھیے سورۂ عنکبوت (۱تا ۳) اور سورۂ آل عمران (۱۷۹)۔ 2۔ وَ اللّٰهُ خَبِيْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ: اللہ تعالیٰ تمھارے تمام اعمال سے پوری طرح با خبر ہے، وہ ظاہر اعمال کے ساتھ دل کا حال بھی جانتا ہے، اس لیے اپنے اعمال درست کرو اور ان کے لیے نیت خالص اللہ کی رضا رکھو۔