الْآنَ خَفَّفَ اللَّهُ عَنكُمْ وَعَلِمَ أَنَّ فِيكُمْ ضَعْفًا ۚ فَإِن يَكُن مِّنكُم مِّائَةٌ صَابِرَةٌ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ ۚ وَإِن يَكُن مِّنكُمْ أَلْفٌ يَغْلِبُوا أَلْفَيْنِ بِإِذْنِ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ مَعَ الصَّابِرِينَ
اب اللہ نے تم سے (بوجھ) ہلکا کردیا اور جان لیا کہ یقیناً تم میں کچھ کمزوری ہے، پس اگر تم میں سے سو صبر کرنے والے ہوں تو دو سو پر غالب آئیں اور اگر تم میں سے ہزار ہوں تو اللہ کے حکم سے دو ہزار پر غالب آئیں اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
اَلْـٰٔنَ خَفَّفَ اللّٰهُ عَنْكُمْ....: اس آیت کی تفسیر میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جب گزشتہ آیت نازل ہوئی تو مسلمانوں کو اپنے سے دس گنا کفار کے مقابلے میں ڈٹے رہنے کا حکم دشوار معلوم ہوا، پھر تخفیف کا حکم آ گیا اور اپنے سے دو گنا کے مقابلے میں ثابت قدم رہنا واجب اور بھاگنا حرام قرار دے دیا گیا۔ [ بخاری، التفسیر، سورۃ الأنفال، باب : ﴿الآن خفف اللہ عنکم ....﴾ : ۴۶۵۳ ] اگر کفار دو گنا سے زیادہ ہوں تو بھاگنا گناہ نہیں، لیکن لڑنا اور جمے رہنا بہر حال افضل ہے، جیسا کہ عہد نبوی اور خلفائے راشدین کے عہد کے واقعات سے معلوم ہوتا ہے۔ (ابن کثیر، قرطبی) اس آیت میں یہ خوش خبری بھی ہے کہ مسلمانوں کے لشکر ہزاروں تک جائیں گے۔