وَلِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ ۚ فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ وَاسِعٌ عَلِيمٌ
اور اللہ ہی کے لیے مشرق و مغرب ہے، تو تم جس طرف رخ کرو، سو وہیں اللہ کا چہرہ ہے۔ بے شک اللہ وسعت والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔
اس آیت کا مطلب یہ نہیں کہ نماز میں قبلہ کی طرف رخ کرنا ضروری نہیں ، بلکہ مراد خاص صورتوں میں قبلہ کی پابندی ختم کرنا ہے، کیونکہ اس سے پہلے ان ظالموں کا ذکر ہے جو اللہ کی مسجدوں سے روکتے ہیں ، یعنی ان ظالموں کی اللہ کی مسجدوں سے روکنے اور انھیں ویران کرنے کی کوشش اللہ تعالیٰ کی عبادت کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ مشرق و مغرب کا مالک اللہ ہی ہے، سو انسان کو قبلہ کی طرف رخ کرنے میں اگر کوئی دشواری ہو، دشمن کا خوف ہو یا قبلہ معلوم نہ ہو سکے تو جس طرف منہ کرکے نماز پڑھ لے درست ہے۔ سنن ابی داؤد ’’ كِتَابُ صَلٰوةِ السَّفَرِ:۱۲۴۹‘‘ میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبد اللہ بن انیس رضی اللہ عنہ کو بھیجا کہ وہ خالد بن سفیان کو قتل کر دیں ، کیونکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے کے لیے فوج جمع کر رہا تھا۔ وہ انھیں عرنہ یا عرفات میں نظر آ گیا (جہاں عبد اللہ بن انیس رضی اللہ عنہ کا چہرہ کعبہ کی مخالف سمت تھا)، ادھر عصر کا وقت ہو گیا تو انھوں نے نماز فوت ہونے کے خدشے کے پیش نظر دشمن کی طرف چلتے چلتے نماز پڑھ لی، پھر جا کر اسے قتل کر دیا۔ سفر کی حالت میں نفل نماز کے متعلق اجازت ہے کہ وہ سواری پر پڑھ لی جائے، خواہ رخ کسی بھی جانب ہو۔ چنانچہ ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ مکہ سے مدینہ کی طرف آتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اونٹنی پر (نفل) نماز پڑھتے رہتے تھے، اس کا رخ جدھر بھی ہوتا۔ فرماتے ہیں ، اسی کے بارے میں یہ آیت اتری : ﴿ فَاَيْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْهُ اللّٰهِ ﴾ [ مسلم، صلوۃ المسافرین، باب جواز النافلۃ : ۳۳؍۷۰۰ ] ”فَاَيْنَمَا تُوَلُّوْا“ کا ایک معنی ”حَيْثُمَا تُوَلُّوْا“ (جہاں بھی تم رخ کر لو) بھی کیا گیا ہے، یہ مجاہد کا قول ہے۔ (طبری) اس صورت میں بھی اس کا تعلق پہلی آیت سے ہے، یعنی اگر تمھیں اللہ کی مسجدوں سے روک دیا جائے تو تم جس جگہ بھی ہو نمازپڑھ لو۔ (التسہیل)