ذَٰلِكَ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيكُمْ وَأَنَّ اللَّهَ لَيْسَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِيدِ
یہ اس کے بدلے ہے جو تمھارے ہاتھوں نے آگے بھیجا اور اس لیے کہ یقیناً اللہ بندوں پر کچھ بھی ظلم کرنے والا نہیں۔
ذٰلِكَ بِمَا قَدَّمَتْ اَيْدِيْكُمْ....: یعنی یہ عذاب عین عدل ہے، کیونکہ اس نے تمھارے سمجھانے کے لیے اپنے رسول بھیجے، کتابیں نازل فرمائیں، مگر تم نے ایک نہ مانی۔ ’’ ظَلَّامٌ‘‘ مبالغے کا صیغہ ہے، یعنی بہت ظلم کرنے والا، مگر یہاں اس پر نفی آئی ہے تو مبالغے کی نفی نہیں کہ معنی یہ ہو کہ اللہ تعالیٰ بندوں پر بہت ظلم کرنے والا نہیں ( گویا تھوڑا کر سکتا ہے) بلکہ یہاں نفی میں مبالغہ مراد ہو گا، یعنی اللہ تعالیٰ بندوں پر ذرہ برابر ظلم کرنے والا بھی نہیں۔ دیکھیے فوائد سورۂ آل عمران (۱۸۲) ایک لمبی حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، میرے بندو ! میں نے ظلم اپنے اوپر حرام قرار دے رکھا ہے اور اسے تمھارے درمیان بھی حرام ٹھہرایا ہے، لہٰذا تم ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو۔ میرے بندو ! یہ تمھارے اپنے ہی اعمال ہیں جن کو میں محفوظ رکھتا ہوں، پھر تمھیں ان کا پورا بدلہ دوں گا، پھر جو خیر پائے وہ اللہ کا شکر ادا کرے اور جو اس کے سوا پائے وہ اپنے آپ ہی کو ملامت کرے۔‘‘ [مسلم، البر والصلۃ، باب تحریم الظلم : ۲۵۷۷، عن أبی ذر رضی اللّٰہ عنہ]