سورة الانفال - آیت 47

وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ خَرَجُوا مِن دِيَارِهِم بَطَرًا وَرِئَاءَ النَّاسِ وَيَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ ۚ وَاللَّهُ بِمَا يَعْمَلُونَ مُحِيطٌ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور ان لوگوں کی طرح نہ ہوجاؤ جو اپنے گھروں سے اکڑتے ہوئے اور لوگوں کو دکھاوا کرتے ہوئے نکلے اور وہ اللہ کے راستے سے روکتے تھے اور اللہ اس کا جو وہ کر رہے تھے، احاطہ کرنے والا تھا۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِيْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِيَارِهِمْ....: مسلمانوں کو لڑائی میں ثابت قدمی اور ذکر الٰہی کی کثرت کا حکم دینے کے بعد اب کفار کی مشابہت اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے۔ (ابن کثیر) ان سے مراد ہیں ابو جہل اور اس کے ساتھی، جو تین مقصد لے کر نکلے تھے، ’’ بَطَرًا ‘‘ اپنی اکڑ اور بڑائی ثابت کرنے کے لیے، ’’رِئَآءَ النَّاسِ ‘‘ لوگوں کو اپنی شان و شوکت اور شجاعت دکھانے کے لیے اور ’’يَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ‘‘ اللہ کے راستے، یعنی اسلام سے لوگوں کو روکنے کے لیے، جبکہ مومن صرف اور صرف اللہ کا دین غالب کرنے اور اس کی رضا حاصل کرنے کے لیے نکلتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ شان و شوکت کا اظہار، فخریہ اشعار اور شراب نوشی کی محفلوں کے بجائے انھیں موت کے پیالے پی کر، ذلت و رسوائی اور دردناک مصیبتوں کے ساتھ واپس لوٹنا پڑا۔ یہ لوگ گویا اپنے رب کے ساتھ مقابلے کے لیے نکلے تھے اور اس قادر و قہار کے احاطے سے تو ان کا کوئی چھوٹا بڑا عمل باہر نہ تھا، اس کے آگے ان کی کیا پیش جا سکتی تھی۔ خندق کے موقع پر کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے کیا خوب کہا تھا : جَائَتْ سَخِيْنَةُ كَيْ تُغَالِبَ رَبَّهَا وَلَيُغْلَبَنَّ مُغَالِبُ الْغَلاَّبِ ’’ سخینہ یعنی قریش اپنے رب سے مقابلے کے لیے آئے اور اس زبردست غالب کا مقابلہ کرنے والا یقیناً ہر صورت مغلوب ہو گا۔‘‘