إِذْ أَنتُم بِالْعُدْوَةِ الدُّنْيَا وَهُم بِالْعُدْوَةِ الْقُصْوَىٰ وَالرَّكْبُ أَسْفَلَ مِنكُمْ ۚ وَلَوْ تَوَاعَدتُّمْ لَاخْتَلَفْتُمْ فِي الْمِيعَادِ ۙ وَلَٰكِن لِّيَقْضِيَ اللَّهُ أَمْرًا كَانَ مَفْعُولًا لِّيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَن بَيِّنَةٍ وَيَحْيَىٰ مَنْ حَيَّ عَن بَيِّنَةٍ ۗ وَإِنَّ اللَّهَ لَسَمِيعٌ عَلِيمٌ
جب تم قریب والے کنارے پر اور وہ دور والے کنارے پر تھے اور قافلہ تم سے نیچے کی طرف تھا اور اگر تم آپس میں وعدہ کرتے تو ضرور مقرر وقت کے بارے میں آگے پیچھے ہوجاتے اور لیکن تاکہ اللہ اس کام کو پورا کردے جو کیا جانے والا تھا، تاکہ جو ہلاک ہو واضح دلیل سے ہلاک ہو اور جو زندہ رہے واضح دلیل سے زندہ رہے اور بے شک اللہ یقیناً سب کچھ سننے والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔
1۔ اِذْ اَنْتُمْ بِالْعُدْوَةِ الدُّنْيَا....: جنگ کا محل وقوع ذکر کرنے سے مقصود یہ ہے کہ تم جس ارادے سے نکلے تھے کہ ہمیں وہ قافلہ مل جائے گا جو نہایت قیمتی ہے اور جس کے محافظ صرف تیس یا چالیس شخص ہیں، اس کے برعکس اللہ تعالیٰ نے تمھیں ایسی جگہ لا کھڑا کیا جہاں لڑائی کے بغیر چارہ نہ تھا۔ ’’عُدْوَةٌ ‘‘ کنارا۔ ’’الدُّنْيَا ‘‘ ’’دُنُوٌّ ‘‘ ( قریب ہونا) میں سے’’أَدْنٰي‘‘ کی مؤنث ہے، قریب ترین، یعنی تم وادی بدر کے اس سرے پر تھے جو مدینہ کے قریب ترین ہے۔ ’’الْقُصْوٰى ‘‘ ’’أَقْصٰي‘‘ کی مؤنث ہے دور ترین، یعنی قریش اسی وادی بدر کے مدینہ سے دور والے کنارے پر تھے۔ ’’وَ الرَّكْبُ اَسْفَلَ مِنْكُمْ‘‘ یعنی جس قافلے کی خاطر تم نکلے تھے وہ تم سے نیچے ساحل سمندر پر تھا، جہاں تمھارا پہنچنا اس وقت ممکن نہ تھا اور تم اور قریش کسی پیشگی ارادے کے بغیر ایک ہی وادی کے کناروں پر آ جمع ہوئے تھے، نہ انھیں تمھارا علم تھا نہ تمھیں ان کا اور اللہ تعالیٰ یہ چاہتا تھا کہ حق و باطل کا ٹکراؤ کروا کر حق واضح کر دے۔ اگر تم اور قریش وقت اور جگہ طے کر کے لڑائی کے لیے نکلتے تو یقیناً طے کردہ وعدے پر پہنچنے میں کمی بیشی ہو جاتی، یا تم اپنی تعداد اور تیاری کی کمی کی وجہ سے نہ پہنچتے، یا کفار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ رعب سے خائف ہو کر نہ پہنچتے، مگر اللہ تعالیٰ کا تمھیں عین ایک ہی وادی میں لا جمع کرنا اس لیے تھا کہ اللہ تعالیٰ جو کچھ کرنا چاہتا تھا وہ پورا کر دے، یعنی مسلمانوں کو فتح اور کفار کو شکست ہو۔ 2۔ لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْۢ بَيِّنَةٍ....: یعنی اس لیے کہ کفار کی اتنی کثرت اور تیاری اور مسلمانوں کی قلت اور بے سروسامانی کے باوجود مسلمانوں کی فتح کے ساتھ کفار پر حجت پوری ہو جائے اور اسلام کی حقانیت واضح ہو جائے، اس کے بعد اگر کوئی کافر رہے تو دلیل دیکھ کر کافر رہے اور ہلاکت میں پڑے اور جو کوئی مسلمان ہو تو وہ بھی دلیل دیکھ کر مسلمان ہو اور ہمیشہ کی زندگی حاصل کرے۔