يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَخُونُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ وَتَخُونُوا أَمَانَاتِكُمْ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ اور رسول کی خیانت نہ کرو اور نہ اپنی امانتوں میں خیانت کرو، جبکہ تم جانتے ہو۔
يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَخُوْنُوا اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ....: امانتوں میں خیانت کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ اس سے وہ تمام ذمہ داریاں اور عہد معاہدے مراد ہیں جو اللہ تعالیٰ یا بندوں سے کیے گئے ہوں۔ صلح، جنگ اور نکاح وغیرہ بھی اس میں شامل ہیں، ایک دوسرے کے ذاتی راز اور فوجی راز بھی امانت ہیں۔ حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ نے فتح مکہ سے پہلے ایک عورت کو خط دے کر مکہ بھیجا تھا، جس میں اہل مکہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حملے کے ارادے سے آگاہ کیا تھا اور اس پر اللہ کی طرف سے تنبیہ ہوئی تھی۔ [ بخاری، ۳۹۸۳۔ مسلم : ۲۴۹۴ ] سورۂ ممتحنہ کے شروع میں اس کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں۔ انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں کم ہی کوئی خطبہ دیا مگر اس میں فرمایا : (( لاَ اِيْمَانَ لِمَنْ لاَّ أَمَانَةَ لَهُ وَلاَ دِيْنَ لِمَنْ لاَّ عَهْدَ لَهُ )) [ أحمد :3؍135، ح : ۱۲۳۸۳، و حسنہ شعیب الأرنؤوط ۔ ابن حبان : ۱۹۴ ] ’’اس شخص کا کوئی ایمان نہیں جس کی کوئی امانت نہیں اور اس شخص کا کوئی دین نہیں جس کا کوئی عہد نہیں۔‘‘ عبد اللہ بن عمرو اور ابوہریرہ رضی اللہ عنھم سے مروی ہے کہ منافق کی علامات میں سے ایک علامت امانت میں خیانت بھی ہے۔ [ بخاری، الإیمان، باب علامات المنافق : ۳۳۔ مسلم : ۵۹ ]