وَاتَّقُوا فِتْنَةً لَّا تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنكُمْ خَاصَّةً ۖ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ
اور اس فتنے سے بچ جاؤ جو لازماً ان لوگوں کو خاص طور پر نہیں پہنچے گا جنھوں نے تم میں سے ظلم کیا اور جان لو کہ بے شک اللہ بہت سخت سزا والا ہے۔
1۔ وَ اتَّقُوْا فِتْنَةً لَّا تُصِيْبَنَّ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا....: ’’فِتْنَةً ‘‘ میں تنوین تعظیم کے لیے ہے، اس لیے ’’عظیم فتنہ‘‘ ترجمہ کیا گیا ہے۔ متعدد احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ جب کسی قوم میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکا فریضہ سرانجام نہ دیا جائے تو اللہ تعالیٰ اس پر ہمہ گیر عذاب بھیج دیتا ہے۔ (ابن کثیر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تم ضرور نیکی کا حکم دو گے اور برائی سے منع کرو گے، یا پھر اللہ تعالیٰ تم پر اپنا عذاب بھیج دے گا، پھر تم اس سے دعا کرو گے مگر وہ تمھاری دعا قبول نہیں کرے گا۔‘‘ [ أحمد :5؍388، ۳۸۹، ح : ۲۳۳۰۱، عن حذیفۃ بن یمان رضی اللّٰہ عنہ وحسنہ شعیب أرنؤوط ] اصحاب سبت یعنی ہفتے کے دن مچھلیاں پکڑنے والوں کا قصہ اس کی ایک مثال ہے۔ دیکھیے سورۂ اعراف (۱۶۴ تا ۱۶۷)۔ 2۔ وَ اعْلَمُوْا اَنَّ اللّٰهَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ: مطلب یہ ہے کہ حکم کی بجا آوری میں کاہلی کرنے سے ایک تو دل ہٹتا ہے، دم بدم مشکل میں پڑتا ہے، دوسرے نیک لوگوں کے عمل میں سستی اختیار کرنے سے گناہ گار بالکل ہی عمل چھوڑ بیٹھیں گے، تو رسم بد پھیلے گی، اس کا وبال سب پر پڑے گا۔