وَلَوْ عَلِمَ اللَّهُ فِيهِمْ خَيْرًا لَّأَسْمَعَهُمْ ۖ وَلَوْ أَسْمَعَهُمْ لَتَوَلَّوا وَّهُم مُّعْرِضُونَ
اور اگر اللہ ان میں کوئی بھلائی جانتا تو انھیں ضرور سنوا دیتا اور اگر وہ انھیں سنوا دیتا تو بھی وہ منہ پھیر جاتے، اس حال میں کہ وہ بے رخی کرنے والے ہوتے۔
وَ لَوْ عَلِمَ اللّٰهُ فِيْهِمْ خَيْرًا لَّاَسْمَعَهُمْ....: یعنی اگر ان کے دل میں خیر یعنی حق کی طلب ہوتی تو اللہ تعالیٰ ان کے لیے سننے کو نافع بنا کر ایمان و عمل کی توفیق دے دیتا۔ پہلے ’’لَاَسْمَعَهُمْ ‘‘ (انھیں ضرور سنوا دیتا) سے مراد وہ سنانا ہے جو دل سے ہو اور فائدہ مند ہو اور ’’لَوْ اَسْمَعَهُمْ ‘‘ (اور اگر وہ انھیں سنوا دیتا) سے مراد محض کانوں سے سنوانا ہے، یعنی اگر انھیں اسی حال میں کہ ان کے اندر کوئی بھلائی نہیں ہے، سنواتا تو یقیناً وہ منہ پھیر کر چل دیتے، یعنی ان لوگوں نے مسلسل گناہوں کا ارتکاب کر کے اپنے اندر سے وہ استعداد ہی ختم کر دی ہے جو ایمان اور راہِ ہدایت کی پیروی کے لیے بیج کی حیثیت رکھتی ہے، پھر جب بیج ہی نہ ہو تو پھل کی امید کیا ہو سکتی ہے، چنانچہ دوسری آیت میں فرمایا : ﴿ كَلَّا بَلْ رَانَ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ مَّا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ ﴾ [ المطففین : ۱۴ ] ’’خبردار رہو کہ ان کے برے اعمال ان کے دلوں پر زنگ بن کر چھا گئے ہیں۔‘‘