إِن تَسْتَفْتِحُوا فَقَدْ جَاءَكُمُ الْفَتْحُ ۖ وَإِن تَنتَهُوا فَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ وَإِن تَعُودُوا نَعُدْ وَلَن تُغْنِيَ عَنكُمْ فِئَتُكُمْ شَيْئًا وَلَوْ كَثُرَتْ وَأَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُؤْمِنِينَ
اگر تم فیصلہ چاہو تو یقیناً تمھارے پاس فیصلہ آ چکا اور اگر باز آجاؤ تو وہ تمھارے لیے بہتر ہے اور اگر تم دوبارہ کرو گے تو ہم (بھی) دوبارہ کریں گے اور تمھاری جماعت ہرگز تمھارے کچھ کام نہ آئے گی، خواہ بہت زیادہ ہو اور (جان لو) کہ بے شک اللہ ایمان والوں کے ساتھ ہے۔
1۔ اِنْ تَسْتَفْتِحُوْا فَقَدْ جَآءَكُمُ الْفَتْحُ....: فتح کا معنی یہاں فیصلہ ہے، جیسا کہ کفار کہتے تھے : ﴿ مَتٰى هٰذَا الْفَتْحُ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ ﴾ [ السجدۃ : ۲۸ ] ’’یہ فیصلہ کب ہو گا، اگر تم سچے ہو؟‘‘ عبد اللہ بن ثعلبہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں : ’’جب (بدر کے دن) لوگ ایک دوسرے کے مقابل ہوئے تو ابوجہل نے کہا، اے اللہ! ہم میں سے جو شخص زیادہ رشتوں کو توڑنے والا اور ہمارے سامنے غیر معروف بات پیش کرنے والا ہے اسے آج صبح ہلاک کر دے، تو یہ فیصلہ طلب کرنے والا ابوجہل تھا۔‘‘ [مستدرک حاکم : 2؍328، ح : ۳۲۶۴۔ أحمد :5؍431، ح : ۲۳۶۶۱، و صححہ شعیب أرنؤوط۔ السنن الکبریٰ للنسائی :6؍350، ح : ۱۱۲۰۱ ] ’’اگر تم فیصلہ چاہو‘‘ یہ خطاب کفار سے ہے، کیونکہ انھوں نے مکہ سے روانہ ہوتے وقت اور ابوجہل نے معرکۂ بدر سے پہلے یہ دعا کی تھی : ’’اے اللہ! ہم میں سے جو حق پر ہے اسے غالب اور جو باطل پر ہے اسے رسوا کر۔‘‘ گویا یہاں ’’ الْفَتْحُ ‘‘ کا معنی حکم اور فیصلہ ہے۔ شاہ عبد القادر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’مکی سورتوں میں ہر جگہ کافروں کا یہ کلام نقل فرمایا کہ ہر گھڑی کہتے ہیں : ﴿ مَتٰى هٰذَا الْفَتْحُ ﴾ یعنی کب فیصلہ ہو گا، سو اب فرمایا کہ یہ فیصلہ آ پہنچا۔‘‘ (موضح) 2۔ وَ اِنْ تَعُوْدُوْا نَعُدْ....: یعنی اگر پھر مسلمانوں کی مخالفت اور ان سے جنگ کرو گے تو ہم پھر تمھارے ساتھ یہی سلوک کریں گے، اگرچہ تمھاری جماعت کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو۔ 3۔ وَ اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُؤْمِنِيْنَ: ’’اَنَّ ‘‘ سے پہلے کئی الفاظ مقدر مانے جا سکتے ہیں، آسان یہ ہے کہ اس جملے کو ’’وَاعْلَمُوْا ‘‘ کا مفعول مان لیا جائے، یعنی جان لو کہ یقیناً اللہ مومنوں کے ساتھ ہے اور اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ ہو کوئی اس کا کیا بگاڑ سکتا ہے؟