سورة الانفال - آیت 11

إِذْ يُغَشِّيكُمُ النُّعَاسَ أَمَنَةً مِّنْهُ وَيُنَزِّلُ عَلَيْكُم مِّنَ السَّمَاءِ مَاءً لِّيُطَهِّرَكُم بِهِ وَيُذْهِبَ عَنكُمْ رِجْزَ الشَّيْطَانِ وَلِيَرْبِطَ عَلَىٰ قُلُوبِكُمْ وَيُثَبِّتَ بِهِ الْأَقْدَامَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

جب وہ تم پر اونگھ طاری کر رہا تھا، اپنی طرف سے خوف دور کرنے کے لیے اور تم پر آسمان سے پانی اتارتا تھا، تاکہ اس کے ساتھ تمھیں پاک کر دے اور تم سے شیطان کی گندگی دور کرے اور تاکہ تمھارے دلوں پر مضبوط گرہ باندھے اور اس کے ساتھ قدموں کو جما دے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

اِذْ يُغَشِّيْكُمُ النُّعَاسَ اَمَنَةً مِّنْهُ: جنگ بدر میں فرشتوں کے ساتھ مدد کے علاوہ یہ دوسری مدد تھی۔ یہ اونگھ دو طرح سے آئی، ایک تو یہ کہ جس رات کی صبح کو لڑائی ہونے والی تھی صحابہ کرام رضی اللہ عنھم خوب سوئے، حالانکہ دشمن کی فکر لگی ہوئی تھی مگر اللہ تعالیٰ نے ان پر نیند بھیج دی، تاکہ وہ تازہ دم ہو جائیں اور دشمن کا ڈٹ کر مقابلہ کریں۔ علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’بدر کے دن مقداد رضی اللہ عنہ کے سوا اور کسی کے پاس گھوڑا نہیں تھا، میں نے دیکھا کہ ہم میں سے ہر شخص سو رہا تھا مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم درخت کے نیچے نماز پڑھتے رہے اور رو رو کر دعائیں کرتے رہے، حتیٰ کہ صبح ہو گئی۔‘‘ [ أحمد : ۱؍۱۲۵، ح : ۱۰۲۳، قال شعیب أرنؤوط إسنادہ صحیح ] اس نیند کے ساتھ مسلمان تازہ دم ہو گئے۔ دوسرا یہ کہ لڑائی سے پہلے میدان میں آنے پر تمام مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ نے اونگھ طاری کر دی، حتیٰ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’لڑائی کے دوران میں اونگھ طاری ہونے کا واقعہ جنگ احد میں بھی پیش آیا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ ثُمَّ اَنْزَلَ عَلَيْكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ الْغَمِّ اَمَنَةً نُّعَاسًا يَّغْشٰى طَآىِٕفَةً مِّنْكُمْ ﴾ [ آل عمران : ۱۵۴ ] ’’پھر اس غم کے بعد اس نے تم پر ایک امن نازل فرمایا، جو ایک اونگھ تھی، جو تم میں سے کچھ لوگوں پر چھا رہی تھی۔‘‘ یہاں مذکور آیت : ﴿ اِذْ يُغَشِّيْكُمُ النُّعَاسَ ﴾ میں یہ معاملہ بدر کے دن پیش آیا، جس سے مسلمانوں کے دلوں سے دشمن کا خوف ختم ہو گیا اور امن و اطمینان کی کیفیت پیدا ہو گئی۔‘‘ سبھی شرکاء پر ایک ہی وقت میں اونگھ طاری کرنا، جس سے وہ بے سدھ ہو کر سو بھی نہ جائیں، بلکہ دشمن کی حرکت پر فوراً متحرک ہو جائیں اور اس اونگھ کی برکت سے انھیں ہر قسم کے خطرے سے بے خوف کرکے امن عطا کرنا، یقیناً ایک عظیم معجزہ تھا۔ اہل علم فرماتے ہیں، لڑائی کے دوران میں اونگھ آنا اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت ہوتی ہے۔ وَ يُنَزِّلُ عَلَيْكُمْ مِّنَ السَّمَآءِ مَآءً....: یہ بھی اسی رات کا واقعہ ہے کہ رات کو بارش ہو گئی، جس سے ایک تو ریت جم گئی اور زمین پر پاؤں اچھی طرح جمنے لگے، جس سے فائدہ اٹھا کر مسلمان آگے بڑھے، نقل و حرکت آسان ہو گئی، دوسرے پانی کی کمی دو ر ہو گئی اور وضو اور طہارت کے لیے آسانی ہو گئی، جب کہ کفار کے پڑاؤ کی جگہ نیچی تھی، وہاں بارش کی وجہ سے کیچڑ ہو گئی اور پاؤں پھسلنے لگے۔ تیسرے مسلمانوں کے دلوں سے شیطان کی گندگی، یعنی گھبراہٹ، خوف، اللہ تعالیٰ سے بدگمانی اور مایوسی کی کیفیت دور ہو گئی اور صبح ہوئی تو وہ لڑنے کے لیے چاق چوبند تھے۔ بدر کے موقع پر یہ تیسرا انعام تھا جس سے کفار پر فتح یاب ہونے میں بڑی مدد ملی۔ (ابن کثیر)