وَمَا جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرَىٰ وَلِتَطْمَئِنَّ بِهِ قُلُوبُكُمْ ۚ وَمَا النَّصْرُ إِلَّا مِنْ عِندِ اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ
اور اللہ نے اسے نہیں بنایا مگر ایک خوش خبری اور تاکہ اس کے ساتھ تمھارے دل مطمئن ہوں اور مدد نہیں ہے مگر اللہ کے پاس سے۔ بے شک اللہ سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔
1۔ وَ مَا جَعَلَهُ اللّٰهُ اِلَّا بُشْرٰى....: آیت کے ان الفاظ سے بعض لوگوں کو یہ غلط فہمی ہوئی کہ فرشتوں نے خود لڑنے میں کوئی حصہ نہیں لیا، بلکہ اللہ تعالیٰ نے انھیں مسلمانوں کی مدد کے لیے محض اس لیے بھیجا تھا کہ ان کے حوصلے بلند ہوں اور انھیں اطمینان رہے کہ ان کی مدد کے لیے فرشتے موجود ہیں، لیکن یہ خیال صحیح نہیں۔ صحیح مسلم میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ اس دوران میں کہ ایک مسلمان مشرکین میں سے ایک آدمی کے پیچھے دوڑ رہا تھا کہ اس نے کوڑا مارنے کی ضرب کی آواز سنی اور ایک سوار کی آواز سنی جو کہہ رہا تھا حیزوم! آگے بڑھو۔ اس نے اس مشرک کو دیکھا کہ وہ چت گر گیا ہے، دیکھا تو اس کی ناک پر نشان تھا، چہرہ پھٹ گیا تھا، جس طرح کوڑا مارنے سے ہوتا ہے اور وہ ساری جگہ سبز ہو گئی تھی۔ وہ انصاری آیا اور اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات بیان کی، تو آپ نے فرمایا : ’’تم نے سچ کہا، یہ تیسرے آسمان کی مدد میں سے تھا۔‘‘ [ مسلم، الجھاد، باب الامداد بالملائکۃ فی غزوۃ بدر....: ۱۷۶۳ ] بدر کے بعد بھی اللہ تعالیٰ نے کئی جنگوں میں فرشتوں کے ساتھ مسلمانوں کی مدد فرمائی۔ میں نے بہت سے قابل اعتماد لوگوں سے سنا کہ متحدہ ہندوستان میں حافظ عبد اللہ روپڑی رحمہ اللہ کے حکم پر مسلمانوں نے عیدالاضحیٰ کے دن گائیں ذبح کیں، تو ہندوؤں اور سکھوں نے مسلمانوں پر حملہ کر دیا، مسلمانوں نے تھوڑی تعداد میں ہونے کے باوجود مقابلہ کیا تو کفار کثیر تعداد میں قتل ہوئے اور بھاگ گئے۔ جب مقدمہ چلا تو جنگ میں شریک مسلمان اور کافر پیش ہوئے، کفار کو شناخت کے لیے کہا گیا تو انھوں نے کہا، ہم سے تو وہ لوگ لڑے ہیں جو سفید لباس میں ملبوس گھوڑوں پر سوار تھے، حالانکہ مسلمانوں میں سے کوئی بھی اس حالت میں نہ تھا۔ کشمیر میں کفار کے خلاف کار روائیوں کے دوران بھی فرشتوں کی مدد کے کئی واقعات پیش آئے ہیں جو مجلہ الدعوۃ اور غزوہ کے مختلف شماروں میں شائع ہوئے ہیں۔ شاعر نے سچ کہا ہے: فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی 2۔ وَ مَا النَّصْرُ اِلَّا مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ....: یعنی یہ نہ سمجھو کہ تمھیں جو فتح نصیب ہوئی ہے وہ ان فرشتوں کی وجہ سے ہوئی ہے، بلکہ حقیقت میں مدد اللہ کی طرف سے ہے، وہ چاہتا تو فرشتوں کے بغیر ہی تمھیں فتح عطا کر دیتا، مگر جہاد کو دین کا حصہ بنانے سے تمھارے ایمان کا امتحان، تمھارے ہاتھوں کافروں کو ذلیل اور تم میں سے کچھ لوگوں کو شہادت سے سرفراز کرنا مقصود ہے۔ پہلی امتوں میں سے جو امت اپنے پیغمبر کو جھٹلاتی اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی نہ کسی طرح کا عذاب نازل ہو جاتا، پانی میں غرق کرنا، خوف ناک چیخ، زلزلہ، پتھروں کی بارش اور شکلیں مسخ کر دینا وغیرہ۔ نوح علیہ السلام کی قوم کے غرق ہونے سے لے کر فرعون کے غرق ہونے تک یہی سلسلہ قائم رہا۔ آخر کار جب موسیٰ علیہ السلام پر تورات نازل ہوئی تو جہاد شروع ہوا اور اس کے بعد یہی طریقہ جاری ہے، اب اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے ہاتھوں کفار کو عذاب دینا چاہتا ہے، فرمایا : ﴿ قَاتِلُوْهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللّٰهُ بِاَيْدِيْكُمْ وَ يُخْزِهِمْ ....﴾ [ التوبۃ : ۱۴، ۱۵ ] ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے جہاد کے چھ فائدے بیان فرمائے ہیں، تفصیل کے لیے سورۂ توبہ میں ان آیات کی تفسیر دیکھیے۔ اگرچہ موسیٰ علیہ السلام کے بعد بھی آسمان سے عذاب کے بعض واقعات پیش آئے، جیسے اصحاب الفیل کا واقعہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی کے مطابق آپ کی امت میں شراب، زنا، ریشم اور باجوں گاجوں کو حلال کرلینے والوں پر زمین میں دھنس جانے اور بندر اور خنزیر بنا دیے جانے کے عذاب آئیں گے۔ [ بخاری، الأشربۃ، باب ما جاء فیمن یستحل الخمر....: ۵۵۹۰، عن أبی مالک الأشعری رضی اللّٰہ عنہ ] مگر وہ عبرت کے لیے ہوں گے اور جزوی، یعنی کہیں کہیں ہوں گے۔ کفار کو کفر سے روکنے اور ان کی سرکشی ختم کرکے انھیں اسلام کے زیر نگیں لانے کی ذمہ داری اب جہاد کے ذریعے سے مسلمانوں ہی پر ہے، جس میں یقیناً اللہ تعالیٰ کی مدد بھی شامل ہو گی۔