يُجَادِلُونَكَ فِي الْحَقِّ بَعْدَمَا تَبَيَّنَ كَأَنَّمَا يُسَاقُونَ إِلَى الْمَوْتِ وَهُمْ يَنظُرُونَ
وہ تجھ سے حق میں جھگڑتے تھے، اس کے بعد کہ وہ صاف ظاہر ہوچکا تھا، جیسے انھیں موت کی طرف ہانکا جا رہا ہے اور وہ دیکھ رہے ہیں۔
1۔ يُجَادِلُوْنَكَ فِي الْحَقِّ....: حق سے مراد کفار کا قافلہ نکل جانے کے بعد کفار سے ہر صورت لڑائی ہے، جس کا انجام فتح اور غنائم ہو گا۔ مختصراً واقعہ یہ ہے کہ سن ۲ ھ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع ملی کہ کفارِ قریش کا ایک بہت بڑا تجارتی قافلہ ابوسفیان کی سرکردگی میں شام سے مکہ جا رہا ہے اور مدینہ کے قریب کے راستے پر پہنچ چکا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کی مختصر سی جمعیت جو تین سو سے کچھ اوپر تھی، لے کر قافلے کے تعاقب کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔ ابوسفیان کو آپ کے نکلنے کی اطلاع ہو گئی، اس نے ایک تیز رفتار سوار کے ذریعے سے مکہ اطلاع بھیج دی اور خود احتیاطاً اصل راستہ چھوڑ کر ساحلی راستہ اختیار کر لیا۔ مکہ میں جب یہ خبر پہنچی تو ابوجہل ایک بڑا مسلح لشکر لے کر قافلے کی حفاظت کے لیے روانہ ہو گیا اور آ کر بدر میں ڈیرے ڈال دیے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع ہوئی تو آپ نے مسلمانوں کے سامنے ساری صورت حال رکھ دی کہ ایک طرف تجارتی قافلہ ہے اور دوسری طرف قریش کا لشکر ہے، اللہ کا وعدہ ہے کہ تمھیں دونوں میں سے ایک ضرور ملے گا۔ اس پر بعض صحابہ کو تردد ہوا، وہ چاہتے تھے کہ لشکر کے بجائے قافلے کا تعاقب کیا جائے۔ اس وقت ابوبکر، عمر، سعد بن معاذ اور مقداد بن اسود رضی اللہ عنھم نے اطاعت کی تقریریں کیں، مقداد رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آپ ہمیں موسیٰ ( علیہ السلام ) کے ساتھیوں جیسا نہیں پائیں گے، جنھوں نے کہا کہ جا تو اور تیرا رب لڑو، ہم تو یہیں بیٹھے ہیں!! تب آپ بدر کی طرف روانہ ہوئے اور اس وقت بعض صحابہ نے لشکر سے نہ لڑنے کا مشورہ دیا تھا، اسے ’’يُجَادِلُوْنَكَ ‘‘ (وہ تجھ سے جھگڑتے تھے) سے تعبیر کیا ہے۔ 2۔ كَاَنَّمَا يُسَاقُوْنَ اِلَى الْمَوْتِ....: یعنی سمجھتے تھے کہ اتنے بڑے لشکر سے لڑنا اپنے آپ کو موت کے منہ میں ڈالنا ہے۔