وَإِذَا لَمْ تَأْتِهِم بِآيَةٍ قَالُوا لَوْلَا اجْتَبَيْتَهَا ۚ قُلْ إِنَّمَا أَتَّبِعُ مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ مِن رَّبِّي ۚ هَٰذَا بَصَائِرُ مِن رَّبِّكُمْ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ
اور جب تو ان کے پاس کوئی نشانی نہ لائے تو کہتے ہیں تو نے خود اس کا انتخاب کیوں نہیں کرلیا ؟ کہہ دے میں تو اسی کی پیروی کرتا ہوں جو میرے رب کی جانب سے میری طرف وحی کی جاتی ہے۔ یہ تمھارے رب کی طرف سے سمجھ کی باتیں ہیں اور ان لوگوں کے لیے سراسر ہدایت اور رحمت ہے جو ایمان رکھتے ہیں۔
1۔ وَ اِذَا لَمْ تَاْتِهِمْ بِاٰيَةٍ....: اس آیت میں شیاطین کے بھائیوں کی گمراہی اور بے جا ضد کی ایک مثال بیان فرمائی ہے، یعنی وہ پیغمبر سے ازراہ عناد کہتے ہیں کہ تم اپنے پاس ہی سے کوئی آیت (معجزہ) کیوں نہیں لے آتے۔ فرمایا میں تو صرف وحی الٰہی کا تابع ہوں اور اپنی طرف سے کوئی معجزہ پیش نہیں کر سکتا۔ دیکھیے سورۂ یونس(۱۵ تا ۱۷)۔ 2۔ هٰذَا بَصَآىِٕرُ مِنْ رَّبِّكُمْ....: اس میں اشارہ ہے کہ قرآن کریم ہی بڑا کافی معجزہ ہے، اس کے ہوتے ہوئے مزید معجزوں کی طلب محض نہ ماننے کا بہانہ ہے۔ دیکھیے سورۂ عنکبوت (۵۰، ۵۱) پھر یہاں قرآن کے تین بڑے اوصاف بیان فرمائے ہیں، جو صرف اس معجزے کی خصوصیت ہیں۔