مَا نَنسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِّنْهَا أَوْ مِثْلِهَا ۗ أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
جو بھی آیت ہم منسوخ کرتے ہیں، یا اسے بھلا دیتے ہیں، اس سے بہتر، یا اس جیسی (اور) لے آتے ہیں، کیا تو نے نہیں جانا کہ بے شک اللہ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔
1۔ نسخ کا معنی ہے بعد میں آنے والے حکم کے ساتھ پہلے کسی حکم کو ختم کر دینا، جیسے پہلے بیت المقدس قبلہ مقرر ہوا، پھر بیت اللہ کی طرف منہ کرنے کا حکم ہوا اور جیسے ہماری شریعت میں پہلی شریعتوں کے بہت سے احکام منسوخ کر دیے گئے۔ یہودی نسخ کے منکر تھے، اسی لیے انھوں نے عیسیٰ علیہ السلام کو جھٹلایا کہ انھوں نے تورات کے بعض احکام کیوں منسوخ کیے۔ قرآن پر بھی انھوں نے اعتراض کیا کہ جب پہلا حکم اللہ تعالیٰ کا تھا اور درست تھا تو وہ منسوخ کیوں ہوا؟ اللہ تعالیٰ نے اس کے کئی جواب دیے، پہلے جواب کی تفصیل یہ ہے کہ پہلا حکم درحقیقت ہوتا ہی اتنی مدت کے لیے ہے، نسخ اس مدت کے ختم ہونے کا اعلان ہے۔ اس وقت تک وہ پہلا حکم عین حکمت تھا، بعدمیں اس جیسے یا اس سے بہتر دوسرے حکم کی ضرورت تھی تو وہ جاری کر دیا گیا۔ کائنات میں ہر وقت اس کا مشاہدہ ہو رہا ہے۔ نطفہ سے علقہ، پھر مضغہ، پھر ہڈیاں ، پھر جنین، پھر بچپن، جوانی، بڑھاپا، موت اور قیامت سب نسخ ہی کی صورتیں ہیں ۔ مختلف موسم مثلاً سردی، پھر بہار، پھر گرمی، پھر برسات، اسی طرح رات دن کا چکر اس کی مثالیں ہیں ۔ طبیب کا مریض کے لیے ایک نسخہ تجویز کرنا، پھر نئی صورت حال کے لیے دوسرا نسخہ تجویز کرنا بھی اس کی مثال ہے، اس کا مطلب یہ نہیں کہ پہلا نسخہ غلط تھا۔ ایک جواب اس اعتراض کا یہ دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اگر اپنا حکم منسوخ نہ کر سکتا ہو تو وہ عاجز ٹھہرا، چنانچہ فرمایا: ’’کیا تمھیں معلوم نہیں کہ بے شک اللہ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔‘‘ مزید فرمایا : ’’کیا تمھیں معلوم نہیں کہ زمین و آسمان کی بادشاہت اللہ ہی کے لیے ہے۔‘‘ وہ بادشاہ ہی کیا ہوا جو پہلے حکم کی جگہ نیا حکم نافذ نہ کر سکے۔ 2۔قرآن کے ساتھ قرآن منسوخ ہو سکتا ہے اور سنت بھی، اسی طرح سنت کے ساتھ سنت منسوخ ہو سکتی ہے اور قرآن بھی، کیونکہ دونوں وحی الٰہی ہیں اور وحی الٰہی کے ساتھ وحی الٰہی منسوخ ہو سکتی ہے۔ ٭ قرآن سے قرآن کے نسخ کی مثال : سورۂ نساء (۱۵) میں اللہ تعالیٰ نے زنا کرنے والی عورتوں کی سزا مقرر فرمائی کہ انھیں گھروں میں بند رکھو، یہاں تک کہ انھیں موت اٹھا لے جائے، یا اللہ تعالیٰ ان کے لیے کوئی راستہ بنا دے، پھر سورۂ نور کے شروع میں زانی مرد اور زانیہ عورت کو سو سو کوڑے مارنے کاحکم دیا گیا۔ مزید دیکھیے سورۂ انفال (66،65) اور مجادلہ(۱۲، ۱۳ )۔ ٭ قرآن کے ساتھ سنت کے نسخ کی مثال : جیسے شروع شروع میں روزے کی حالت میں مغرب کے بعد سو جانے کے بعد کھانا پینا اور بیوی کے پاس جانا منع تھا، پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ فَالْئٰنَ بَاشِرُوْهُنَّ وَ ابْتَغُوْا مَا كَتَبَ اللّٰهُ لَكُمْ وَ كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا ....﴾ [ البقرہ : ۱۸۷ ] قبلہ کی تبدیلی بھی قرآن کے ساتھ سنت کے نسخ کی مثال ہے۔ ٭ سنت کے ساتھ سنت منسوخ ہونے کی مثال : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( نَهَيْتُكُمْ عَنْ زِيَارَةِ الْقُبُوْرِ فَزُوْرُوْهَا وَ نَهَيْتُكُمْ عَنْ لُحُوْمِ الْأَضَاحِيِّ فَوْقَ ثَلاَثٍ، فَأَمْسِكُوْا مَا بَدَا لَكُمْ )) ’’میں نے تمھیں قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا سو ان کی زیارت کرو اور میں نے تمھیں تین راتوں سے زیادہ قربانیوں کے گوشت ( ذخیرہ کرنے) سے منع کیا تھا سو انھیں رکھ لو جب تک تمھاری مرضی ہو۔‘‘ [ مسلم، الأضاحی، باب بیان ما کان من النہی .... : ۹۷۷، قبل ح: ۱۹۷۶، عن بریدۃ رضی اللّٰہ عنہ ] ۔ ٭ سنت صحیحہ کے ساتھ قرآن کے نسخ کی مثال خواہ وہ متواتر نہ ہو : جیسا کہ سورۂ نساء میں اللہ تعالیٰ نے ان عورتوں کا ذکر فرمایا جن سے نکاح حرام ہے، ان میں دو بہنوں کو ایک نکاح میں جمع کرنا بھی حرام ہے، پھر فرمایا : ﴿ وَ اُحِلَّ لَكُمْ مَّا وَرَآءَ ذٰلِكُمْ ﴾ [ النساء : ۲۴ ] ’’ان کے سوا سب عورتوں سے نکاح تمھارے لیے حلال ہے۔‘‘ اس آیت کی رو سے خالہ اور اس کی بھانجی، پھوپھی اور اس کی بھتیجی کو ایک نکاح میں جمع کرنا جائز ہے، مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرما دیا تو حرام ہو گیا اور اس پر امت متفق ہے۔ تنبیہ ! درحقیقت یہ سنت کے ساتھ کتاب اللہ سے زائد حکم کی مثال ہے، بعض لوگ کتاب اللہ پر زیادتی کو نسخ کہتے ہیں ، ان کے قول کے مطابق یہ نسخ کی مثال ہے، ورنہ شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ نے فرمایا کہ سنت کے ساتھ قرآن کے نسخ کی کوئی قابل اطمینان مثال مجھے نہیں ملی۔ 3۔ نسخ احکام میں ہوتا ہے خبر میں نہیں ، ورنہ ہر جھوٹا شخص، جب اس کی پیشین گوئی یا گزشتہ یا موجود واقعے کی کوئی خبر غلط نکلے کہہ دے گا وہ منسوخ ہو گئی، جیسے مرزا قادیانی کے مریدوں کا حال ہے۔ 4۔ بعض آیات و احکام جنھیں باقی رکھنا مقصود نہ تھا اللہ تعالیٰ نے بھلا دیے، جیسا کہ فرمایا : ﴿ سَنُقْرِئُكَ فَلَا تَنْسٰۤى() اِلَّا مَا شَآءَ اللّٰهُ ﴾ [ الأعلٰی : ۶، ۷ ] ’’ہم ضرور تجھے پڑھائیں گے تو تو نہیں بھولے گا۔ مگر جو اللہ چاہے۔‘‘